پی ٹی آئی کی قیادت کے خلاف خوفناک کریک ڈائون جاری ہے۔ لیکن یہ کریک ڈائون فسطائی حکومت نہیں کررہی، اس پارٹی کا اپنا، طاقتور اور بے حساب پھیلا ہوا سوشل میڈیا کر رہا ہے۔ پارٹی قیادت کو غدّار بتا رہا ہے۔ یہ لکھ اور بول رہا ہے کہ پارٹی قیادت نے عمران کو بیچ دیا، حقیقی آزادی کا سودا کر لیا۔ یہ کریک ڈائون اعصاب شکن ہے یہاں تک کہ وزیر اعلیٰ کے پی کے علی امین گنڈاپور جو کل تک اسی سوشل میڈیا کیلئے حقیقی آزادی کے مجاہد اوّل تھے آج غدار اعظم قرار دئیے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کی اس یلغار پر ان سے سوال کیا گیاتو گنڈاپور برس پڑے۔ فرمایا کہ یہ لوگ یعنی سوشل میڈیا والے بھاڑ میں جائیں۔
سوشل میڈیا والے جو بھاڑ جھونک رہے ہیں، خود کیسے اس میں جائیں،گنڈا پور نے نہیں بتایا
______
گنڈاپور مشکوک تو کئی مہینے سے چلے آ رہے تھے لیکن سوشل میڈیا کے کچھ عناصر ان کی صفائی یا انہیں شک کا فائدہ ضرور دیتے تھے۔ اب لگتا ہے ساری گنجائش ختم ہو گئی۔ اس بارے میں فیصلہ کن باب صوابی کے جلسے کے بعد لکھا گیا۔
کئی دن پہلے ہی اعلان ہوا تھا کہ صوابی کے جلسے میں قوم کو راہ صواب دکھائی جائے گی اور راہ صواب پر چلنے کا ثواب حقیقی آزادی کی صورت میں نکلے گا۔ اس جلسے میں تقریریں تو خوب ہوئیں لیکن راہ صواب بدستور پردہ غیاب میں رہی۔ اہم ترین تقریریں دو ہی تھیں۔ ایک سلمان اکرم راجہ کی، دوسری خود گنڈا پور کی۔ سلمان اکرم راجہ نے ساری ذمہ داری قوم پر ڈال دی، کہا قوم کو نکلنا ہو گا، کفن باندھنا ہو گا، مرنا ہو گا۔ اگر ایسا نہیں کرے گی تو ایک ایک کر کے مار دی جائے گی (خلاصہ: ہم نے کچھ نہیں کرنا، جو کرنا ہے قوم نے کرنا ہے، ہم نے نہیں مرنا، قوم نے مرنا ہے، وہ مرے)۔ گنڈا پور نے ساری ذمہ داری عمران خاں پر ڈال دی اور کہا سارا اختیار ان کے پاس ہے، وہی راہ صواب کا اعلان کریں گے یوں جلسے کا قصہ تمام ہوا۔ ایک وڈیو مظہر ہے کہ پارٹی کے کچھ ارکان جلسہ ختم ہونے کے بعد جلسہ گاہ میں کھڑے قیادت کو گالیاں دے کر خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔
______
جلسہ میں لوگوں کی تعداد کم ہونے پر بھی سوشل میڈیا برہم ہے۔ پارٹی ذرائع کی ’’کیلکولیشن‘‘ یہ ہے کہ جلسے میں لوگوں کی تعداد چھ ہزار سے کچھ کم تھی، اس سے زیادہ نہیں تھی۔ نعرہ یاد آ گیا:
عمران تیرے جاں نثار
چھ ہزار، چھ ہزار
______
جلسے کی خاص بات بلکہ خاص ترین بات یہ تھی کہ اس میں امریکہ کا جھنڈا لہرایا گیا۔ جھنڈا لہرانے والا کارکن پارٹی کے ایک سینئر، شعلہ بیان سٹی سیکرٹری کا خاص آدمی تھا۔
پاکستان کے سیاسی جلسوں کی تاریخ میں ایک نیا باب لکھا گیا۔ اب تک امریکی پرچم جلسہ گاہوں اور جلوسوں کی گزر گاہوں میں جلائے تو جاتے رہے، لہرائے کبھی نہیں گئے۔ پہلی بار، پاکستان کی کسی سیاسی جماعت نے اپنے جلسے میں امریکی پرچم لہرایا۔ سنا ہے، امریکی پرچم ک یوں لہراتے دیکھ کر فسطائی حکومت کی ٹانگیں کانپ گئیں۔
ہم کوئی غلام تو نہیں اور ایبسلیوٹلی ناٹ والی کتاب کا ٹائٹل یہی امریکی پرچم ہی تو ہے۔
انکل ٹام زندہ باد، انکل سام زندہ باد، مرشد زندہ باد، حقیقی آزادی زندہ باد۔
______
ہر نئے شادی شدہ جوڑے کو سب لوگ دعا دیتے ہیں کہ جوڑی سلامت رہے۔ لیکن جوڑی سلامت نہیں رہتی، ٹوٹ جاتی ہے۔ اپنے وقت پر کبھی پہلے میاں، کبھی بیوی رخصت ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد کی تنہائی شادی سے پہلے کی تنہائی کی طرح نہیں ہوتی۔ اس میں کرب ہوتا ہے، اتنا زیادہ کہ زندگی ’’اجنبی‘‘ لگنے لگتی ہے۔
اردو ڈائجسٹ کے بانی اور مدیر الطاف حسن قریشی کی اہلیہ پچھلے دنوں وفات پا گئیں۔ طویل عرصے کی رفاقت تھی، نصف صدی سے زیادہ۔ اس پر الطاف صاحب نے ایک کالم لکھا۔ جو تاثراتی سے زیادہ واقعاتی اسلوب میں تھا لیکن یہ کالم بجائے خود تاثراتی بن گیا۔ صدمے کی کیفیت کا احاطہ الطاف حسن قریشی نے غیر جذباتی انداز میں کرنے کی کوشش کی لیکن ایک ایک پیرے سے صدمہ چھلک رہا تھا۔ قریشی صاحب کا اسلوب واقعاتی رہا ہے جذباتی نہیں۔ لیکن بیتنے والا صدمہ تحریر کے واقعاتی ہونے کے باوجود، اپنے تاثر میں ازخود جذباتی بن گیا۔
شریک حیات کی جدائی برداشت کرنا آسان نہیں ہوتا۔ روسی ادیب ترجنیف نے ایک بار لکھا تھا کہ جب جسم بوڑھے ہوتے ہیں تو محبت جوان ہو جاتی ہے۔ بڑھاپے میں شریک حیات کی جوانی گویا محبت کی ’’عنفوان شباب‘‘ میں موت ہے۔
قریشی صاحب کا کالم پڑھ کر اس تاثر سے منسلک بہت سی تحریریں یاد آ گئیں، یہاں صرف دو کا ذکر کروں گا۔ ایک تو اپنے زمانے، 1950ء کا معرکتہ الآرا ناول The way west ، دوسرا مولانا عبدالماجد دریا بادی کی مشہور عالم سوانح عمری ’’آپ بیتی‘‘ ہے۔
دی وے ویسٹ مشرقی امریکہ کے آباد کاروں کی مغرب میں منتقلی کی کہانی ہے۔ یہ ناول الفرڈ گوتھری (Guthrie) نے لکھا اور اس پر پلٹرز انعام بھی ملا۔ اس پر مشہور فلم بھی اسی نام سے بنی۔ سفر کے آغاز سے پہلے، اسی عمررسیدہ کردار ڈک سمرس کی بیوی وفات پا جاتی ہے۔ سمرس باہر بیٹھا ہے اور وقفوں وفقوں سے اپنی بیوی کے ساتھ رفاقت کے گزرے لمحات یاد کرتا ہے۔ یہ عمل ناول کے ابتدائی حصے میں بار بار ہوتا ہے۔ ایک خیال اسے یہ آتا ہے کہ تابوت میں وہ عورت لیٹی ہوئی ہے جس نے میری خوشی کیلئے، میرے آرام کیلئے، اپنی ہمت، طاقت اور جسمانی صلاحیت سے بڑھ کر محنت کی، ضرورت سے زیادہ کام کیا، اپنی صحت اور آرام کی پروا نہیں کی۔ تمام عمر خدمت پر جتی رہی یہاں تک کہ بیمار ہو گئی، اور ایسی بیماری کہ جس کا علاج نہ ہو سکا، بالآخر مر گئی۔ ناول میں جما جمایا گھر چھوڑ کر ہجرت کا سفر کرنے کی اذیت کا بھی لطیف انداز میں ذکر ہے اور بتایا گیا ہے کہ عورتیں یہ دکھ زیادہ محسوس کرتی ہیں۔
مولانا دریا بادی کی آپ بیتی میں اہلیہ کی وفات پر درد انگیز باب ہے۔ بیوی کی لاش ڈیوڑھی میں رکھی ہے۔ مولانا یاد کرتے ہیں کہ اتنے برس، اتنے عشرے پہلے یہی خاتون، اسی ڈیوڑھی میں، پلنگ پر گٹھڑی بن کر بیٹھی تھی۔ نکاح کے بعد مولانا اسے گھر لائے تو رسم کے مطابق اسی ڈیوڑھی میں اسے بٹھایا گیا۔ یعنی ’’استقبالیہ‘‘ یہیں ہوا اور اتنا عرصہ گزرنے کے بعد الوداعیہ بھی اسی ڈیوڑھی میں ہوا۔ تب وہ میکے سیرخصتی کے بعد یہاں آئی تھی، آج یہ اس کی دنیا سے رخصتی کی تقریب تھی۔ یہ ایک مربوط باب ہے، جس نے پڑھا، کبھی فراموش نہیں کر سکتا، گوتھرے کے ناول میں مربوط باب نہیں، وقفے وقفے سے، دیگر واقعات کے ہجوم میں شوہر کے ذہنی تاثرات ہیں اور جنہوں نے یہ ناول پڑھا، وہ ان تاثرات کو بھی فراموش نہیں کر سکتے۔ ناول پڑھ کر لگتا ہے گوتھری نفسیات دان، جزئیات رس اور صاحب دل فنکار تھا۔ گوتھری امریکہ کے عظیم ناول نگاروں کی اسی کڑی میں شامل تھا جس میں یوجین ارنیل جیسا صاحب فن بھی شامل تھا جس نے مارکوملین جیسا یادگار ڈرامہ لکھا۔ یہ زندگی کا بندوبست ہے۔ جس گھر میں آج رونق کی گرم بازاری ہے، وہ گھر سدا نہیں رہے گا۔ کچھ عشروں کے بعد اس گھر کا ایک بھی فرد نہیں رہے گا، باری باری سب رخصت ہو جائیں گے، نئے آتے جائیں گے۔ رونق لگی رہے گی، لیکن اجزائے رونق بدلتے رہیں گے۔ چمن میں روزانہ ایک سا منظر نظر آتا ہے، جو کل تھا، وہی منظر آج بھی ہے لیکن کل کے پھول کل شام ہی رخصت ہو گئے تھے، آج نئے پھول کھلے ہیں، کل یہ بھی نہیں رہیں گے۔
بہرحال، خدا الطاف قریشی صاحب کو حوصلہ دے، ان کا رفیق بنے، ان کا سایہ قوم پر تادیر برقرار رکھے۔ آمین۔