بھارت آئندہ برس پاکستان میں ہونے والی چیمپئنز ٹرافی میں شرکت کے بجائے پاکستان سے ایونٹ کی میزبانی واپس لینے کی سازشوں میں مصروف ہے۔ بھارت ہمیشہ سے کھیل میں سیاست شامل کرتا آیا ہے۔ شاید ہی کبھی ایسا ہو کہ بھارت نے کھیلوں کو سیاست زدہ نہ کیا ہو، بھارت ہمیشہ کھیلوں کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا آیا ہے اور آج بھی اس جدید دور میں دہشتگرد نریندرا مودی کھیلوں کو بدترین انداز میں سیاست زدہ کرنے کے راستے پر چل رہا ہے۔ پاکستان نے گذشتہ برس بھارت میں ہونے والے کرکٹ ورلڈکپ میں شرکت کی، اس سے قبل پاکستان 2016 میں بھی بھارت کھیلنے کے لیے گیا تھا جب کہ دو ہزار بارہ، تیرہ میں بھی بھارت کھیلنے کے لیے جا چکا ہے، دو ہزار گیارہ کرکٹ ورلڈکپ کا سیمی فائنل کھیلنے کے لیے بھی پاکستانی ٹیم بھارت کا دورہ کر چکی ہے۔ لیکن اس کے باوجود نریندرا مودی کی حکومت میں کرکٹ جسے شرفاء کا کھیل کہا جاتا ہے اسے سیاست زدہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ بھارت کا متعصب رویہ دنیا بھر میں کھیل کے فروغ، بین الاقوامی مقابلوں کے انعقاد میں تسلسل کو خطرات میں ڈالے ہوئے ہے۔ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی ایک ملک کسی دوسرے ملک میں طے شدہ عالمی مقابلوں میں شرکت کے بجائے میزبان ملک کے خلاف مہم شروع کر دے، کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی ایک ملک یہ کہے کہ وہ فلاں ملک میں نہیں کھیلنا چاہتا تو پورے کا پورا ٹورنامنٹ ہی کسی اور ملک منتقل کر دیا جائے۔ پاکستان نے ماضی میں بہت لچک دکھائی ہے، 2023 میں ہم نے ایشیا کپ ہائیرڈ ماڈل کے تحت کھیلا، ایونٹ کے کچھ میچ پاکستان اور باقی میچز سری لنکا میں ہوئے تھے لیکن یہ تو آئی سی سی کا ایونٹ ہے، یہاں دنیا کی بہترین ٹیمیں شامل ہیں، دنیائے کرکٹ کے نمایاں ممالک اس ایونٹ کا حصہ ہیں اب یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ کیا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ دنیا میں کھیلوں کی اصل روح پر عمل کی باتیں کرنیوالے، اخلاقیات کا درس دینے والے، اصولوں اور روایات کی باتیں کرنیوالے خاموش رہیں گے یا پھر بھارت کیخلاف کھڑے ہونگے۔ کیا وہ ممالک جو اس کھیل کو شرفا کا کھیل کہتے نہیں تھکتے کیا وہ اس کھیل کو بھارت کی پاکستان مخالف، متعصب اور سیاسی سوچ پر قبضہ کرتے دیکھ کر خاموشی اختیار کریں گے ، اپنے حصے کے فنڈز سمیٹیں گے اور ایک طرف ہو جائیں گے یا پھر اس کھیل کی ساکھ کو بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کرینگے۔ ویسے اب تک کے حالات یہی بتاتے ہیں کہ روایات، اقدار، کھیل کی روح پر عمل صرف دوسروں کے لیے ہے کیونکہ چند روز گذرے ہیں انگلینڈ کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی تھی اس دوران انگلینڈ کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو بھی آئے تھے موصوف نے مہمانوں کے آداب کا بھی خیال نہیں رکھا اور ملتان میں کھڑے ہو کر چیمپئنز ٹرافی کے حوالے سے پاکستان کے بجائے متبادل آپشنز کا ذکر چھیڑ دیا تھا، اس پر باتیں ہوئیں بعد میں ایک وضاحتی بیان بھی آیا لیکن اصل کام تو انگلینڈ کرکٹ بورڈ کے چیف ایگزیکٹیو نے متبادل آپشنز بارے بتاتے ہوئے کر دیا تھا۔ دیکھنا یہ ہے بھارت کی اجارہ داری کو ختم کرنے طاقت کے توازن کو قائم رکھنے اور کھیل کے مستقبل کو یرغمال ہونے سے بچانے کیلئے آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ سمیت دیگر ممالک کیا کرتے ہیں۔ خاموشی اختیار کرتے ہیں یا پھر اصولوں کا ساتھ دیتے ہیں، قواعد و ضوابط اور قوانین کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں، کھیل کی عظیم روایات کے تحفظ کا ساتھ دیتے ہیں یا بھارت کیساتھ جڑے مالی مفادات کی خاطر خاموشی اختیار کرتے ہوئے اصولوں پر سودے بازی کرتے ہیں۔
اب خبر یہ ہے کہ پاکستان نے بھارت کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت نے آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کیلئے بھارتی ٹیم کے پاکستان نہ آنے کے معاملے پر پی سی بی کو اصولی اور سخت موقف اپنانے کی ہدایت کی ہے۔ ماضی میں کئی بار آئی سی سی ایونٹس میں مختلف ٹیموں نے دوسرے ممالک میں کرکٹ کھیلنے سے انکار کیا، مگر نہ تو ٹورنامنٹ ہائبرڈ ماڈل پہ شفٹ ہوا نہ ہی میزبانی کا مقام تبدیل کیا گیا ، 1996 میں ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا نے ورلڈ کپ کے لیے سری لنکا کا دورہ کرنے سے انکار کر دیا تھا، 2003 میں نیوزی لینڈ نے کینیا میں نہیں کھیلا اور انگلینڈ نے زمبابوے میں کھیلنے سے انکار کر دیا تھا لیکن نہ تو میزبان ملک بدلا نہ کوئی ہائبرڈ ماڈل کا منصوبہ پیش کیا گیا۔ تو اس بار ہائبرڈ ماڈل کیوں ہونا چاہئے؟ کسی قسم کا کوئی ہائبرڈ ماڈل قبول نہیں کیا جائے گا۔ آئی سی سی کو اپنے ٹورنامنٹ کو سیاست سے ہائی جیک نہیں ہونے دینا چاہیے۔ حکومت اگر یہ موقف اختیار کرتی ہے پاکستان کرکٹ بورڈ اس پر عمل کرتا ہے تو یقینا اس کا مثبت نتیجہ سامنے آ سکتا ہے۔ یہ تو کوئی طریقہ نہیں ہے کہ جب بھارت کا دل کرے چیزیں بدل دی جائیں۔ اگر چیمپئنز ٹرافی ہائبرڈ ماڈل پر جاتی ہے تو پاکستان کو بھی بھارت کے ساتھ بھارت میں کوئی میچ نہیں کھیلنا چاہیے۔ آئی سی سی کو اس چیز کا احساس دلانا ضروری ہے کہ آمدن کے لیے مسابقت سے بھرپور کرکٹ کا ہونا ضروری ہے اور جب تک مضبوط حریف نہ ہوں اس وقت تک دیکھنے والوں کے لیے کسی کھیل میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اگر پاکستان بھارت کے میچ سے پیسہ بناتی ہے تو یہ دو ٹیموں کے مابین میچ کے ذریعے ہونے والی آمدن ہوتی ہے۔ یہ صرف بھارت کا کریڈٹ نہیں ہے۔ سو زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔
دوسری طرف پاکستان نے آسٹریلیا کو ون ڈے سیریز میں ان کے میدانوں پر شکست دے کر سب کو حیران کیا ہے۔ قومی ٹیم کی مسلسل ناکامیوں کی وجہ سے مرجھائی ہوئی قوم کے لیے یہ فتح تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہے۔ پاکستان کے فاسٹ باؤلرز نے وہ کر دکھایا جو کوئی نہیں کر سکا۔ پاکستان کے فاسٹ باؤلرز نے کینگروز کو بے بس کر کے رکھ دیا۔ ملتان میں انگلینڈ کے خلاف پہلا ٹیسٹ میچ ہارنے کے بعد پاکستان ٹیم میں ہونے والی تبدیلیوں اور فارمیٹ کے اعتبار سے ہونے والی سلیکشن، کنڈیشنز کے مطابق حتمی گیارہ کھلاڑیوں کے انتخاب کی حکمت عملی نے ٹیم کی حالت ہی بدل کر رکھ دی ہے۔ یہاں سپنرز آؤٹ کرتے رہے اور آسٹریلیا میں فاسٹ باؤلرز چھائے رہے۔ قوم اپنی ٹیم سے ایسے ہی کھیل کی توقع کرتی ہے۔ آسٹریلیا کے خلاف بھی پہلا میچ پاکستان ہار گیا لیکن اس میں جیت کے لیے لڑنے اور آخری گیند تک ہار نہ ماننے کا جذبہ ضرور نظر آیا، قوم اپنی ٹیم سے اسی جوش و جذبے کی توقع رکھتی ہے۔ آسٹریلیا میں ون ڈے سیریز جیتنے کے بعد اب نظریں ٹونٹی ٹونٹی میچوں کی سیریز پر ہیں پاکستان کے پاس کینگروز کو اس فارمیٹ میں بھی ہرانے کا اچھا موقع ہے اور اس سے فائدہ ضرور اٹھانا چاہیے۔
آخر میں احمد فراز کا کلام
ابھی ہم خوبصورت ہیں’’
ہمارے جسم اوراقِ خزانی ہو گئے ہیں
اور ردائیں زخم سے آراستہ ہیں
پھر بھی دیکھو تو
ہماری خوشنمائی پر کوئی حرف
اور کشیدہ قامتی میں خم نہیں آیا
ہمارے ہونٹ زہریلی رْتوں سے کاسنی ہیں
اور چہرے رتجگوں کی شعلگی سے
آبنوسی ہو چکے ہیں
اور زخمی خواب
نادیدہ جزیروں کی زمیں پر
اس طرح بکھرے پڑے ہیں
جس طرح طوفاں زدہ کشتی کے ٹکڑوں کو
سمندر ساحلوں پر پھینک دیتا ہے
لہو کی بارشیں
یا خودکشی کی خواہشیں تھیں
اس اذیت کے سفر میں
کون سا موسم نہیں آیا
مگر آنکھوں میں نم
لہجے میں سم
ہونٹوں پہ کوئی نغم ماتم نہیں آیا
ابھی تک دل ہمارے
خند طفلاں کی صورت بے کدورت ہیں
ابھی ہم خوبصورت ہیں
زمانے ہو گئے
ہم کوئے جاناں چھوڑ آئے تھے
مگر اب بھی
بہت سے آشنا نا آشنا ہمدم
اور ان کی یاد کے مانوس قاصد
اور ان کی چاہتوں کے ہجر نامے
دور دیسوں سے ہماری اور آتے ہیں
گلابی موسموں کی دْھوپ
جب نو رْستہ سبزے پر قدم رکھتی ہوئی
معمور تن میں در آتی ہے
تو برفانی بدن میں
جوئے خوں آہستگی سے گنگناتی ہے
اْداسی کا پرندہ
چپ کے جنگل میں
سرِ شاخِ نہالِ غم چہکتا ہے
کوئی بھولا ہوا بِسرا ہوا دکھ
آبلہ بن کر تپکتا ہے
تو یوں لگتا ہے
جیسے حرف اپنے
زندہ آوازوں کی صورت ہیں
ابھی ہم خوبصورت ہیں
ہماری خوشنمائی رفِ حق کی رونمائی ہے
اسی خاطر تو ہم آشفتہ جاں
عشّاق کی یادوں میں رہتے ہیں
کہ جہ اْن پر گزرتی ہے وہ کہتے ہیں
ہماری حرف سازی
اب بھی محبوبِ جاں ہے
شاعری شوریدگانِ عشق کے وردِ زباں ہے
اور گلابوں کی طرح شاداب چہرے
لعل و مرجاں کی طرح لب
صندلیں ہاتھوں سے
چاہت اور عقیدت کی بیاضوں پر
ہمارے نام لکھتے ہیں
سبھی درد نا آشنا
ایثار مشرب
ہم نفس اہلِ قفس
جب مقتلوں کی سمت جاتے ہیں
ہمارے بیت گاتے ہیں
ابھی تک ناز کرتے ہیں
سب اہلِ قافلہ
اپنے حدی خوانوں پر آشفتہ کلاموں پر
ابھی ہم دستخط کرتے ہیں اپنے قتل ناموں پر
ابھی ہم آسمانوں کی امانت
اور زمینوں کی ضرورت ہیں
ابھی ہم خوبصورت ہیں