ہر سال بہتر مستقبل کے سپنے آنکھوں میں سجائے سینکڑوں مائوں کے لال ڈنکی لگانے کے نتیجہ میں نہایت بے دردی اور ظالمانہ طریقہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، وہ بغیر کھائے پیئے، تنگ، بند اور گھٹن زدہ ماحول میں رہنے اور لاتعداد تکالیف سہنے کے باوجود بھی منزل مقصود تک پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس سلسلہ میں آئے روز المناک خبریں اور ویڈیوز سامنے آتی ہیں اور پھر کچھ عرصہ خاموشی کے بعد کوئی بڑا سانحہ رونما ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں چند اہم اقدامات ہیں جن پر اگر پوری دیانت داری سے کام کیا جائے تو ملک میں ویزہ ایجنٹی، اس سے وابستہ لوٹ مار اور ہر طرح کے فراڈ اور دھوکہ دہی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ دیکھیں، یہ ایک عام فہم بات ہے کہ ہنر مند لوگ ہر ملک کی ضرورت ہیں۔ اپنا ہنر اچھے سے اچھے داموں بیچنا ہنرمند کا حق ہے۔ بدقسمتی سے یہ لوگ فراڈیوں کے ہاتھ چڑھ کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ کیا اس کے لئے حکومت کو ایک منظم ادارہ بنانے کی ضرورت نہیں؟ اس حوالے سے Man Power Supply طرز کا نظام بنایا جا سکتا ہے۔ہماری لوکل لیبر سپلائی اس فارمولہ پر چل رہی ہے۔جیسے آج سے بیس سال پہلے عمرہ وحج کمپنیز بنی تھیں۔ ایجنٹ حضرات حاجی کے گھر پہلے پہنچ جاتے ہیں۔اب بندہ اللہ کے گھر سے بھی غائب ہونے کا سوچتا ہے۔
دراصل ویزا ایجنٹس کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ مرغی کے انڈے کھانے کی بجائے پوری مرغی ایک ہی بار میں ہڑپ کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں- ان کا کام ویزہ بیچ کر اور فیس لے کر معاملے سے باہر نکلنا ہوتا ہے۔اس کی بجائے اگر یہ کام براہ راست حکومت سنبھال لے اور یہ کام اس سے وابستہ ریاستی منسٹری کے دائرہِ کار میں شامل کر دیا جائے تو ویزہ بیچنے والوں کا مکروہ دھندہ بند ہو سکتا ہے۔ ملک میں ہنر مند افراد تیار کرنے والے ادارے موجود ہیں جن میں ٹیوٹا سب سے بڑا نام ہے۔ یہاں سے ہنر مند افراد تیار کیے جائیں اور پھر بیرون ملک کی ضروریات کے مطابق حکومتی سطح پر ہی وہ افراد ملک سے باہر بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔حکومت اگر چاہے تو نجی اداروں کے ساتھ بطور سیل ڈیپارٹمنٹ پارٹنر شپ بھی کر سکتی ہے اور باہر جانے کے خواہش مند افراد سے ایک ہی بار پیسے لوٹنے اور بٹورنے کی بجائے ان سے ماہانہ یا فی گھنٹہ کمیشن بھی طے کیا جا سکتا ہے۔ ابتدائی معاہدہ دو سال کا ہونا چاہیے۔لیکن سسٹم ایسا منظم ہو کہ بیرون ملک جانے والے کو وہاں جاب نہ تلاش کرنی پڑے بلکہ سیل ڈیپارٹمنٹ کے پاس اس کی اسکلز نالج ہو، اور وہ اندرون اور بیرون ملک ان کی صلاحیتوں کے مطابق انہیں جاب تلاش کر کے دیں۔ کمیشن دس سے پندرہ فیصد طے کر لیا جائے۔
تاہم اگر کوئی شخص طے شدہ معیار اور معاہدے کی دیگر شرائط پر مثلاًاسکلز کا معیار ، کردار، نفسیات اور دیگر شرائط پوری نہ کرتا ہو تو اسے بیرونِ ملک نہ بھیجا جائے ۔کیونکہ وہاں جا کر وہ ملک و قوم کی بدنامی کو چھوڑیے اپنے لیے ہی مصیبت کا باعث بنتا ہے۔ بیرون ملک جانے والے افراد کیلئے سرکاری انسٹیٹیوٹ سے سرٹیفیکیٹ لینا اور عالمی معیار کے مطابق ان کی نفسیاتی اور جسمانی پرکھ لازمی ہونی چاہیے۔ اسی طرح نجی سیکٹر کے ایجنٹوں کے لیے بھی معیارات طے کیے جائیں اور جو ان پر پورا نہ اترے ان کو ناصرف جرمانہ کیا جائے بلکہ ان کا لائسنس بھی منسوخ کیے جائیں۔یہ اقدام یقیناً اس شعبے میں انقلاب لا سکتا ہے- جب ہر سیلز شعبہ کمیشن پہ کام کر سکتا ہے تو افرادی قوّت میں یہ نظام کیوں کارفرما نہیں ہو سکتا؟ یہ کوئی اتنا بڑا کام نہیں ہے بس پہلے سے جاری شدہ سرگرمیوں کو ریگولیٹ کرنا ضروری ہے-
صاف بات ہے کہ جب تک بندہ بیرون ملک کام کرتا رہے گا، ایجنسی اور ایجنٹ کو کمیشن ملتا رہے گا جب آپ کا بندہ وہاں پر نہیں ہو گا کمیشن نہیں ملے گا۔ اس طرح سیل مین بہترین قسم کے ہنر مند افراد تیار کروائے گا اور ایجنٹی کے نام پر ہونے والی منفی سرگرمیاں ختم ہو جائیں گی اور ماؤں کے لال ڈنکی لگا کر پاکستان سے باہر نہیں جائیں گے بلکہ سیکھ کر سمجھ کر اور سرکاری سرپرستی میں باہر جائیں گے۔