یکنالوجی کی دنیا میںآنے والے انقلابات میں سوشل میڈیا سب سے بڑا انقلاب ثابت ہوا جس نے ہمارے باہمی میل جول، معلومات کے حصول اور اسے دوسروں تک پہنچانے کے طریقوں کو بدل کر رکھ دیا۔ جہاں اس نے یہ سب آسان کیا وہیں سوشل میڈیا ڈس انفارمیشا جھوٹ پھیلانے کا تیز ترین ذریعہ بھی بن گیا۔ آج ہمیں سوشل میڈیا پر ہر طرح کی جعلی خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں، جن کے پیچھے مختلف قسم کے سیاسی، نظریاتی یا معاشی مفادات ہوتے ہیں۔ عام طور پر یہ خبریں مکمل جھوٹ پر مبنی ہوتی ہیں اور دھوکہ دینے کے لیے بنائی گئی ہوتی ہیں۔ اس کے لیے کئی طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ جیسے پرانی تصاویر کا غلط سیاق و سباق کے ساتھ استعمال، یا پھر کسی نئی تباہییا حادثے کو کسی پرانی آفت کی تصاویر کی مدد سے بڑھا چڑھا کر پیش کرنا۔ بعض اوقات اصل تصاویر کو ایڈٹ کر لیا جاتا ہے یا پھر ایسی سنسنی خیز سرخیاں لگائی جاتی ہیں جو آپ کو اپنی طرف کھینچتی ہیں لیکن اندر موجود مواد بے معنی ہوتا ہے۔ "متبادل سچائی" والے نظرییکے مطابق حقیقت کے ایک سے زیادہ رخ ہو سکتے ہیں، جس میں ذاتی آراء کو بھی حقائق کی طرح درست سمجھا جاتا ہے۔ اب تو ڈیپ فیک تصاویریا ویڈیوز بھی بنائی جارہی ہیں جن میںAI کی مدد لی جاتی ہے۔ یہ کسی غیر حقیقی منظر کو حقیقی بنا کر پیش کر سکتی ہیں جیسے کہ آپ کو کسی ساحل پر دکھانا جبکہ آپ اپنے گھر میں سو رہے ہوں۔ یہ سب کچھ دنیا میں کوئی بھی شخص کسی بھی کونے میں بیٹھ کر محض چند کلکس کی مدد سے کر سکتا ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ انٹرنیٹ نے دنیا کو ایک عالمی نیوز روم بنا دیا ہے جہاں لوگ اپنی رائے کو خبر بنا کر پیش کرتے ہیں لیکن اس طرح کہ حقیقت اور جھوٹ کے درمیان فرق مٹ جاتا ہے۔ جھوٹی خبریںیا ڈس انفارمیشن غصہ، پریشانی نے خوف جیسے منفی جذبات کو بھڑکانے کے لیے بنائی جاتی ہیں تاکہ فوری ردعمل پیدا ہو۔ 2018 میں(MIT)Massachusetts Institute of Technology کی ٹویٹر پر کی گئی ایک تحقیق سے پتا چلا کہ منفییا جھوٹی خبریں70 فیصد زیادہ ری ٹویٹ کی جاتی ہیں۔ اس کا مقصد سادہ سا ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر موجود خوف یا تعصبات کو نشانہ بنا کر فوری ردعمل پیداکیا جا سکے۔ اس کے نتائج اکثر بہت خطرناک نکلتے ہیں۔ یہ بہت بڑے پیمانے پر عوامی فسادات سے لے کر انتخابات میں ووٹرز کی رائے اور پھر انتخابی نتائج میں تبدیلی پر منتج ہوسکتے ہیں۔ یہاںیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوگ جھوٹی خبروں پر اتنی جلدییقین کیوں کر لیتے ہیں؟ ماہرین نفسیات نے اس حوالے سے کئی نظریات پیش کیے ہیں۔ ایک نظریہ "Confirmation Bias" ہے، یعنی اگر اگر خبر یا کہانی آپ کے خیالات و نظریات سے میل کھاتی ہے تو آپ اسکو فوراً قبول کرتے ہیں چاہے وہ جھوٹ پر مبنی ہو۔ ایک اور نظریہ "Social Identity Theory" ہے جس کے مطابق اگر خبر کسی شخص کے سماجی گروہ یا شناخت کو تقویت دیتی ہے تو وہ اسے بلاتحقیق شئیر کرلے گا۔ وجہ جو بھی ہو لیکن جھوٹی خبریںیا ڈس انفارمیشن لوگوں کی سوچ اور رویوں پر بہت بری طرح سے اثر انداز ہو رہی ہے۔ جس سے ہمارے معاشرے میں سیاسی اور سماجی تفریق پیدا ہورہی ہے۔ سوشل میڈیا خبروں کے حوالے سے معتبر ذرائع اور اداروں کو بھی کمزور کر رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مسئلے سے کیسے نمٹا جائے؟ دنیا بھر میں ڈس انفارمیشنیا جھوٹی خبروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے قوانین بنائے گئے ہیں۔ جن پر سختی سے عمل بھی کیا
جاتا ہے۔ قانون توڑنے والوں کو سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔ جیسے کہ یورپییونین کا "Digital Services Act" کا قانون۔ اسی طرح برطانیہ نے "Online Safety Bill" کا قانون متعارف کروایا ہے۔ امریکہ میں سوشل میڈیا کمپنیوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے آئے دن کانگریس کی سماعتیں ہوتی رہتی ہیں اور اس حوالے سے بار بار ان کمپنیوں کی طلبی ہوتی ہے جہاں ان کو کڑے سوالوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی نجی ادارے بھی اس مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکنیہ سب اقدامات کافی نہیں ہیں، اس کے لیے عوام کی شمولیت بھی ضروری ہے۔ ہمیں سب سے پہلے جھوٹی خبروں کے نقصانات سے آگہی حاصل کرنا ہوگی اور خبروں کو شئیر کرنے سے پہلے انکی تصدیق کرنے کی عادت اپنانی ہوگی۔ پاکستان بھی سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے اسی طرح متاثر ہے جیسے کہ باقی دنیا کے ممالک۔ حال ہی میں ایک تعلیمی ادارے میں خاتون سے بدسلوکی کی جعلی خبر اس طرح پھیلای ئی گئی کہ اس کی وجہ سے ملک بھر میں امن عامہ کا سنگین مسلہ پیدا ہو گیا۔ اسی طرح اپنے مخصوص مقاصد، جن میں سیاسی، معاشی اور نظریاتی مفادات کا حصول شامل ہیں، سوشل مییڈیا کا ایک گروہ مسلسل جھوٹ اور سنسنی پھیلانے میں مصروف ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی اور سماجی سطح پر وہ تمام اقدامات کیے جایں جن سے ہماری نوجوان نسل کو اس عفریت کے غلط استعمال اور اس کے ممکنہ اثرات سے آگاہی دی جائے۔اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہمارا معاشرہ ایک مثبت اور تعمیری سوچ سے دور ہوتا چلا جائے گا۔آخر میں فرانسیسی فلسفی پیئر ایبلارڈ کا ایک قول یاد رکھنے کے قابل ہے کہ "حکمت کا آغاز شک سے ہوتا ہے، شک ہمیں سوالات کی طرف لے جاتا ہے اور سوالات ہمیں سچائی تک پہنچانے میں مدد کرتے ہیں۔" پہلے سے کہیں زیادہ ، آج اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے!