سابق رکن پارلیمنٹ مصطفی نوازکھوکھر نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ آئینی بنچ 26ویں ترمیم کیخلاف پٹیشن نہیں سن سکتا، 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف پٹیشن کوسننے کیلئے فل کورٹ بنائی جائے، جوڈیشل انکوائری کی جائے کہ حکومت نے سینیٹ میں ووٹ کیسے پورے کئے؟. انہوں نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں استدعا لے کر گئے کہ آئینی بنچ 26ویں ترمیم کیخلاف پٹیشن کو نہیں سن سکتا کیونکہ وہ خود 26ویں آئینی ترمیم کے نتیجے میں بنا ہے ہماری استدعا کہ 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف پٹیشن سننے کیلئے فل کورٹ بنائی جائے.انہوں نے کہاکہ راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کا کیس تھا جس میں سپریم کورٹ کے 13ججز بیٹھے، ان کے مطابق بھی کہ پارلیمنٹ ، حکومت اور جوڈیشری تین بنیادی ستون ہیں مصطفی نواز نے کہا کہ ذوالفقار بھٹو نے 1973کا آئین بناتے وقت تقریرحوالہ دیا کہ آئین کے تحت پارلیمنٹ کے پاس لامحدود اختیارات ہیں جس کو کم کیا گیا ہے، کیا پارلیمنٹ کے پاس اختیار ہے کہ انسانی حقوق کے خلاف آئین سازی کرے؟. انہوں نے کہاکہ ہم مطالبہ کیا ہے کہ جوڈیشل انکوائری کی جائے کہ جس طریقے سے اخترمینگل کے ممبران سے ووٹ لئے گئے، یہ مرضی کے ساتھ ووٹ کاسٹ نہیں ہوئے، سینیٹ میں دوتہائی اکثریت کیلئے 65 ووٹ چاہیے تھے حکومت کے پاس 64 ووٹ تھے تو حکومت نے اختر مینگل کے دو ووٹ توڑے.