بھارت نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بار پھر اپنی ٹیم کو چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان بھیجنے سے انکار کردیا مگر انڈین صحافی نے اس کا حل بھی بتا دیا ہے ۔ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی آئندہ برس فروری اور مارچ میں پاکستان میں شیڈول ہے لیکن بھارت ایک بار پھر کھیل میں سیاست لاکر جنٹلمین گیم سے کھلواڑ شروع کر دیا اور روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مودی سرکار نے اپنی ٹیم پاکستان بھیجنے سے انکار کر دیا۔
بھارت ہائبرڈ ماڈل کے تحت اپنے میچز یو اے ای میں کھیلنے کا خواہاں ہے تاہم دوسری جانب پی سی بی بھی اپنے موقف پر ڈٹ چکا ہے اور ہائبرڈ ماڈل کو مسترد کرتے ہوئے پورا ایونٹ پاکستان میں کرانے کے موقف پر قائم ہے۔ ایسے میں ایک بھارتی صحافی نے بلیو شرٹس کے پاکستان چیمپئنز ٹرافی کھیلنے کے لیے آنے کی ایک راہ دکھائی ہے ۔ نجی ٹی وی اے آر وائی نیوز کے مطابق نامور بھارتی کرکٹ صحافی ایل پی کے ساہی نے کہا ہے کہ کرکٹ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو بھی پسند ہے جب کہ سابق پاکستانی وزیراعظم نواز شریف بھی اس کھیل کے دیوانے ہیں اور دونوں ہی رہنماؤں کے درمیان دوستانہ روابط ہیں۔ ایل پی ساہی نے کہا کہ اگر سابق وزیراعظم نواز شریف نریندر مودی کو ایک ٹیلی فون کال کر لیں تو یہ فون کال بھارتی کرکٹ ٹیم کے 16 سال بعد پاکستان آنے کا راستہ کھول سکتی ہے۔ یہی آخری اور بہترین آپشن بھی ہے‘۔ واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت کی تاریخ میں کرکٹ ڈپلومیسی بہت شہرت رکھتی ہے۔ 1987ء میں جب پاکستان اور بھارت جنگ کے دہانے پر کھڑے تھے تو اس وقت کے صدر پاکستان جنرل محمد ضیا الحق میچ دیکھنے بھارت پہنچے اور جنگ ٹل گئی۔ 2004ء میں تمام تر خدشات کے باوجود اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے بھارتی کپتان سروو گنگولی کو کہا، پاکستان جائیں میچ ہی نہیں دل بھی جیتیں اور جب بھارتی ٹیم آئی تو پاکستانی شائقین کے ان کے لیے دلوں کے ساتھ اپنے گھروں کے دروازے بھی کھول دیے جس سے نہ صرف مہمان کرکٹرز بلکہ آنے والے بھارتیوں کے دل بھی جیت لیے۔ پاکستان نے 2005ء میں بھارت کا جوابی دورہ کیا تو وہاں بھارتی شائقین نے گرین شرٹس اور پاکستانی شائقین کی دل کھول کر مہمان نوازی کی۔ نریندر مودی برف پگھلانے 2015ء میں پاکستان آ چکے ہیں اور نواز شریف بھی مودی کی پہلی بار تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے بھارت جا چکے ہیں۔ کرکٹ پچ سے امن کا راستہ پہلے بھی کھلا ہے اور آج بھی کھل سکتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے کھلاڑیوں کو کرکٹ کے میدان میں صف آرا دیکھنے کے لیے صرف سرحد کے دونوں جانب ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں کرکٹ شائقین منتظر ہیں۔