فرعون کی زندگی… موسٰی کی عاقبت

Oct 12, 2010

محمد یسین وٹو
واصف علی واصف کہا کرتے تھے کہ ہم عجیب لوگ ہیں! ہم فرعون کی زندگی چاہتے ہیں مگر موسٰی کی عاقبت۔ میرے نزدیک ان کا یہ قول حکمران اشرافیہ‘ نوکر شاہی اور اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کی یک سطری تشریح ہے۔ پوری دنیا میں ہی جب یہ طبقات مسندوں پر براجمان ہوتے ہیں تو اختیارات کے ارتکاز کے ذریعے فرعون بننے میں جتے رہتے ہیں مگر جب سرکار لد جاتی ہے تو خود کو پارسا ثابت کرنے کے لئے آپ بیتیوں اور لیکچروں کا سہارا لیتے ہیں خواہ وہ امریکہ کا بل کلنٹن ہو یا روس کا آندرے گورمیو‘ ہندوستان کا جواہر لعل نہرو ہو یا پاکستان کا جنرل ایوب خان‘ قومیتیں مختلف ہیں مگر خصلتیں ایک سی!ملکِ عزیز میں ہی دیکھ لیجئے! لیاقت علی خاں کے زمانے کے بعد سے فوجی اور سیاسی حکمرانوں نے اقتدار کے دوام اور فرعونی اختیارات کے حصول کے لئے کبھی امریکہ بہادر کی چوکھٹ سنبھالی تو کبھی اسٹیبلشمنٹ کی نرسریوں میں پرورش پائی! کبھی آئین میں آمرانہ ترامیم کے ذریعے اختلاف رائے کا راستہ بند کیا تو کہیں امیرالمومنین بننے کے لئے جماعتوں میں جمہوری رویوں کی بیخ کنی کی‘ کبھی فوج کو کنٹرول کرنے کے لئے سینیارٹی بائی پاس کر کے من پسند افراد لگائے گئے اور کبھی عدلیہ کو استعمال کرنے کے لئے جیالے اور متوالے ججز لگا دئیے۔ اخبارات اور چینلز نے مرضی کا سچ نہ لکھا تو ان کا ناطقہ بند کیا مگر جب اقتدار سے علیحدہ ہوئے تو یوں پارسا ہوئے کہ داغدار دامن کی رفوگری میں کامیاب ٹھہرے۔حالیہ طبلے والے جنرل مشرف کو ہی دیکھ لیجئے‘ موصوف نو سال اپنے ہی ملک پر قابض رہے‘ دو مرتبہ آئین کی مٹی پلید کی ‘ملک امریکہ کے حوالے اور ملکی شہری بیرونی ایجنسیوں کو بیچ ڈالے‘ جامعہ حفصہ کی بچیوں کے پرخچے اڑائے‘ اکبر بگٹی کے قتل کے ذریعے بلوچستان کو غیر مستحکم کیا‘ کراچی کو لسانیت کی بھینٹ چڑھایا‘ چیف جسٹس کی سرِ بازار توہین کروائی‘ کرپٹ سیاستدانوں کو این آر او کی کلین چٹ دے کر ملک کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑا اور خود طبلہ سرنگی لیکر باہر جا بیٹھے۔ خود ستائشی اور خودنمائی کے شوق میں بھاڑے کے دانشور سے ایک آپ بیتی تو پہلے ہی لکھوا لی تھی مگر اب سیاست میں آنے کے لئے پارسائی کا ڈھونگ بھی رچا رکھا ہے۔ جب خود ستائشی سے سیاسی قد نہ بڑھ پایا تو موصوف نے دوسروں کی تحقیر کے ذریعے بالا قد ہونے کا قصد کیا اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ وہ منہ جس کے کھلنے سے پہلے صرف دانت نظر آتے تھے‘ اب اس سے خبثِ باطن بھی ٹپک رہا ہے۔ موصوف نوازشریف پر بے تُکی تنقید سے شروع ہوئے تو این آر او کا ذکر کھول کر اپنے ہی پوتڑے دھونے بیٹھ گئے۔ مرحومہ بے نظیر پر الزام تراشی سے خاطر خواہ افاقہ نہ ہوا تو اپنے ہی سابقہ احباب پر دشنام طرازی شروع کر دی۔ میر ظفراللہ جمالی کو جھوٹا قرار دیا اور اپنے کئے ہوئے سارے گناہ چودھری شجاعت اور پرویز الٰہی کے کھاتے میں ڈال دئیے۔ ایک آمر کی یہ دلیل کتنی بھونڈی اور بے وزنی ہے کہ چودھری برادران نے اُسے این آر او پر مجبور کیا جبکہ اس این آر او کی وجہ سے ہی انکی ایک بڑی سیاسی مخالف بے نظیر بھٹو واپس آنے والی تھیں!جب اتنی لاف زنی‘ بہتان گوئی اور تہمت بازی سے عوام اور عالمی طاقتوں میں پذیرائی نہ ملی تو موصوف نے چاند پر تھوکنے کے مترادف محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان بارے ہرزہ سرائی کی اور انہیں بدکردار قرار دیا۔ شاید مے نوش جنرل صاحب کردار بھی شراب کے پیمانے میں ناپتے ہیں‘ قیامت کی نشانی ہے کہ کردار کا سرٹیفکیٹ کون جاری کر رہا ہے۔
موصوف نے اسی پر صاد نہیں کیا بلکہ عالمی طاقتوں کی بساط کا مہرہ بننے کے لئے کشمیر میں دراندازی کو تسلیم کر کے ملک کے مفادات کو سفارتی دہلیز پر ذبح کر دیا اور یہ عین اس وقت کیا گیا جب کشمیری عدم تشدد کے ذریعے سیاسی تحریک چلاتے ہوئے ہندوستان کو دیوار سے لگا چکے تھے۔ پیپلز پارٹی کی سرکار جو خود ڈیل سے آنے کے باعث موصوف پر آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ نہیں چلا سکی۔ اس غدارانہ بیان پر شاید کچھ غیرت کا مظاہرہ کر سکے۔ کوئی تو ہو جو بدمست جنرل صاحب کو شٹ اپ کال دے۔ ستاروں کی روشنی میں پرویز مشرف کا سنیریو نشاندہی کر رہا ہے کہ موصوف یا تو کسی ایکسیڈنٹ سے دوچار ہوں گے یا ان کے قتل ہونے کے امکان ہیں۔ جہاں تک پاکستان کی سیاست میں کامیابی کا تعلق ہے دور دور تک اس کا امکان نہیں ہے۔
مزیدخبریں