آدابِ سیاست

جمہوریت کا نام بہت سنتے ہیں، اس کی ضرورت کا احساس بھی بہت جتلایا جاتا ہے اور آمریت کو ایک الگ فرعونی نظام سے تشبیہ دی جاتی ہے، جو درست ہے لیکن کوئی ذی فہم یہ بتائے کہ جمہوریت کے ساتھ جو ہولی 64 برس سے کھیلی جا رہی ہے کیا وہ جمہوریت نواز اور آمریت پرست ٹولے نے مل کر نہیں کھیلی۔ اب انتخابات کا موسم آنے کو ہے پھر سے سیاسی اکھاڑے جمیں گے، پھر سے دھینگا مشتی ہو گی۔ پھر سے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا جائے گا۔ ہم یعنی ہمارے حکمران سیاستدان، سبھی امریکہ کے نقش قدم میں ارم دیکھتے ہیں تو کیا امریکہ کی کوئی اچھی روایت اپناتے ہوئے شرم آتی ہے۔ آج امریکہ میں انتخابی مہم شروع ہے۔ دو سٹیج لگتے ہیں۔ دونوں حریف دوبدو کھڑے ہو کر عوام سے خطاب کرتے ہیں۔ سوال و جواب ہوتے ہیں۔ دلائل پیش کئے جاتے ہیں اور یہ سب کچھ ہنستے مسکراتے ہوتا ہے۔ کیا ارض پاک پر یہ اچھی روایت شروع نہیں کی جا سکتی۔ سیاسی اکھاڑہ اور پہلوانوں کا اکھاڑہ گویا دونوں میں کوئی فرق ہی نہ رہا۔ یہ لمبے چوڑے خرچے، یہ گالم گلوچ، یہ غلط القاب نوازی، یہ دیواروں پر چپکی سیاست، یہ بینرز کی بھرمار، یہ اوچھے بیانات، کیا یہی سیاسی اخلاقیات ہے جسے ہم نے رائج کرکے ہمیشہ لٹیروں کا انتخاب ممکن بنایا۔ صرف اس لئے کہ گڑبڑ کرنے کے امکانات اور انتخابات ہم قافیہ بنا دئیے گئے ہیں۔ اس وقت میدان میں تین پارٹیاں نمایاں ہیں، ایک اقتدار میں ہے ایک اپنی اداﺅں کی بہار میں ہے اور تیسری انتظار میں ہے۔ یہ تین سٹیج اگر ایک شامیانے تلے، اپنے ووٹروں کے درمیان انتخابی مناظرہ کریں تو نہایت اچھی اور شفاف انتخابی فضا پیدا ہو سکتی ہے۔ اگر یہ عمل جاری رہا تو یہاں دو ہی بڑی پارٹیوں کا نظام بھی وضع ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ تمام بڑے جمہوری معاشروں میں ہوتا ہے اور اگر چھوٹی چھوٹی پارٹیاں بھی ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں وہ اپنی اپنی پسند کی کسی ایک بڑی پارٹی سے اتحاد کر لیں۔ بہرصورت بہتر یہی ہے کہ میدان میں دو ہی بڑی سیاسی جماعتیں اتریں اور اس بات پر الیکشن کمشن کی جانب سے سختی سے عمل کرایا جائے کہ انتخابی ضابطہ اخلاق کو کوئی بھی پامال نہیں کرے گا اور نہ ہی کروڑوں روپے انتخابی مہم پر خرچ کئے جائیں گے اور نہ ہی کسی کی کردار کشی کی جائے۔ آج جو حالات ہیں ان کا تقاضا ہے کہ انتخابات ایک دیانتدار نگران حکومت کی نگرانی میں کرائے جائیں کیونکہ برسر اقتدار جماعت کی پوری مدت کے دوران کارکردگی اس درجہ ”مستحسن“ رہی ہے کہ سو سو جھگڑے اور تنازعات پیدا ہو سکتے ہیں اور انتخابات اختلافات کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ لوگوں کو اس قدر انتخابی ڈر لاحق ہے کہ بیشتر نے ابھی سے ووٹ کسی کو نہ دینے کا کہنا شروع کر دیا ہے۔ اگر ٹرن آﺅٹ بہت ہی نیچے رہا تو جو جمہوریت نافذ ہو گی وہ خاصی مضمحل اور غیر نمائندہ قسم کی ہو گی۔ لوگوں کو ابھی سے یہ ہمت دلانے اور تلقین کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ ایک واضح اکثریت والی حکومت لانے کے لئے وہ اپنا حق رائے دہی ضرور استعمال کریں۔ پاکستان میں وزارت داخلہ کی انتہائی کمزوری کا بڑا مظہر یہ ہے کہ کئی بیرونی خفیہ ایجنسیاں سرگرم عمل ہیں۔ ملالہ کیس اس کا بین ثبوت ہے۔ یہ گولی کس نے ماری، کیوں ماری اور کیوں اگلے ہی روز شمالی وزیرستان میں آپریشن کی خبر آئی اور یہ ملالہ خاندان پہلے بھی ایک مصیبت سے گزر چکا ہے۔ سچ کہا تھا اقبال نے ع
بہت تیز ہیں مغرب کے رندے، ملالہ کو گولی لگنے کے بعد یکمشت پانچ ڈرون طیارے گھس آئے اور بمباری کرکے چلے گئے۔ ملالہ کو اللہ صحت کاملہ دے، لیکن ان ملالاﺅں کا بھی کسی کو احساس ہے جو اب بھی شمالی وزیرستان کی چٹانوں تلے بے گوروکفن پڑی ہیں کیا ان کو بھی طالبان نے مارا تھا۔ طالبان کو امریکی انٹیلی جنس نے اپنے زوردار پروپیگنڈے کے ذریعے اشتہاری بنا کر اپنا منصوبہ شروع کر رکھا ہے۔ ایبٹ آباد کا ڈرامہ، اور اب یہ نیا سٹنٹ امریکی جارحیت و دہشت گردی پر پردہ ڈال کر پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے کی سازش ہے اور معاملہ یہیں نہیں ٹھہرے گا، آگے چلے گا کیونکہ امریکی ہدف کچھ اور ہے اور یہ نہ ہو کہ پھر ہمارا کچھ بھی زور نہ ہو۔ انتخابات میں جس قدر تاخیر کی جائے گی خطرات بڑھتے جائیں گے۔ اب بہت جلد ایک مضبوط قیادت برسر اقتدار آنا ضروری ہے جو ملک کو درپیش وہ تمام مسائل ایک ایک کرکے حل کرے جن کے باعث ہمارا وجود اور زندہ رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ یہ نہایت اچھا شگون ہے کہ چیف الیکشن کمشنر نہایت صالح شہرت کی حامل شخصیت ہے۔ عدالت عظمیٰ بھی اپنا کردار کماحقہ ادا کر رہی ہے اور فوج اپنی جگہ بیدار ہے۔ اب یہ عوام کی سوجھ بوجھ پر ہے کہ وہ اپنے اخلاقی دائرے میں رہ کر جمہوری جرات کا اظہار کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ تعداد میں جائز ووٹ ڈالیں۔ جن کے شناختی کارڈ نہیں ہیں وہ دیر نہ کریں تاکہ ایک بڑا ٹرن آﺅٹ سامنے آے اور ملک میں کوئی ایک پارٹی واضح اکثریت کے ساتھ، پورے جمہوری آئینی اختیارات رکھتے ہوئے، ملک کا درہم برہم نظم و نسق سنبھالے۔ کراچی اور بلوچستان میں اٹھائے گئے شیطانی قوتوں اور اندر کے غداروں کے فتنے فرو کر سکے۔ دشمن نے ایسے دام ہمرنگ زمین بچھا رکھے ہیں کہ اگر کوئی سیانا آدمی کہتا ہے کہ دیکھو یہ جال ہے اس میں نہ الجھنا تو لوگ اس کو برا کہتے ہیں۔ یہ بیدار رہنے کا وقت ہے اور سب سے بڑی بات ہے کہ سیاسی جماعتیں ان کے ورکرز اس طرح کا پرامن مقابلہ کریں کہ یہ انتخابات دنیا کے لئے ایک مثال بن جائیں اور پاکستان کو بدنام کرنے کی جو مہم چلائی جا رہی ہے اور یہاں اس خطے میں امریکہ جو ممکنہ بلاک بنا کر اپنی بالادستی سے، ایک نوآبادیاتی غلبہ قائم رکھنا چاہتا ہے۔ وہ اس میں کامیاب نہ ہو کیونکہ پاکستان نے جب سے امریکہ سے دوستی شروع کی ہے اس کی ترقی اور امن و امان کا گراف گرتا جا رہا ہے۔
جنرل الیکشن روز بروز ناگزیر ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ ایک دھندلی سی فضا مزید گہری ہوتی جا رہی ہے۔ مسائل پیدا ہو رہے ہیں، کم نہیں ہو رہے اور اس کا واحد علاج لوگوں کی انتخابات میں بھرپور شمولیت اور فوری انتخابات ہیں، اب مزید تاخیر کی گنجائش نہیں۔

ای پیپر دی نیشن