8اکتوبر2005ءکا قیامت خیز زلزلہ

ریاض نامہ ۔۔۔ گل محمد بھٹہ .......
8 اکتوبر2005ءکو صبح8:45 منٹ پر آنے والے زلزلہ نے جو تقریباً45 سیکنڈ تک جاری رہا۔ لاکھوں لوگوں کو لقمہ اجل بنا دیا۔ ہزاروں کو ملال کی تصویر بنا کر رکھ دیا اس قیامت خیز زلزلہ نے سینکڑوں ہستے بستے شہروں قصبوں بازاروں بستیوں مکانات اور دوسری سرکاری و نجی عمارتوں کو آن واحد میں ملبہ کے ڈھیر میں بدل دیا۔ عقل سلیم حیران تھی۔ زلزلہ آنے کے بعد متاثر علاقوں میں گھبراہٹ اور خوف و ہراس پھیل گیا ہر کوئی اپنے اہل خانہ و رشتہ داروں کے متعلق تشویش کا شکار تھا۔ ان گنت لوگ بدحواس ہو کر ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ کہ اپنے اعزہ کا پتہ لگائیں۔ زلزلہ کے باعث ٹیلیفون ڈیڈ ہو چکے تھے۔ بلکہ پورا مواصلاتی نظام درم برہم ہو چکا تھا۔ گاڑیاں جو سڑکوں پر بھاگ رہی تھی وہ لوگوں سے بھری ہوئی تھیں جو خالی تھیں وہ بھی رکنے کا نام نہ لیتی تھیں کیونکہ انہیں اپنے رشتہ داروں اور گھر والوں کی فکر دامن گیر تھی اس وقت جب انسانی آبادیاں مساجد مدارس تعلیمی ادارے زمین بوس ہو چکے تھے۔ جب ایسے میں کچھ عمارات اپنی اصل حالت میں موجود ہیں یاد رہے کہ 45 سیکنڈ کا ایسا شدید زلزلہ تھا جس میں کئی لوگ بے گھروہ گئے کئی خواتین اپنے سہاگ کھو بیٹھیں کئی بچے یتیم وہ گئے اور کئی بھائی اپنی بہنوں سے دور ہو گئے کئی آوازیں ملبے تلے دب گئیں اورکئی وادیاں سو گئیں وہ مقامات جو کل تو حسین مناظر پیش کر رہے تھے آج وہ ویران کھنڈرات کی صورت اختیار کر چکے ہیں کل جہاں لوگوں کا رش تھا رونق اور رنگینی تھی آج وہاں ویرانی کے سوائے کچھ موجود نہ تھا۔
لوگ عمارتوں کے نیچے ایسے دب گئے تھے جیسے پودے کی جڑ کو مٹی میں دبا دیا جاتا ہے ۔تمام لوگ ملبے کی نذر ہو چکے تھے۔ لیکن اس وقت انہیں وہاں سے نکالنے والا کوئی موجود نہ تھا۔لوگ ایسے ملبے تلے سسکیاں لیتے ہوئے آخر کار اپنی جان دے بیٹھے اور جو کچھ باقی رہ گئے انہیں آخر کار میشنوں کے ذریعے کچلا ہوا نکالا گیا اب وہ تو نکال لئے گئے لیکن ان کے علاقے کے لوگوں کو کہاں لے جایا جاتا۔ہسپتال زمین بوس ہو چکے تھے ڈاکٹر بھی ملے تلے دب چکے تھے۔ اس وقت دنیا نے مالی امداد کی جبکہ حکومت پاکستان نے بھی بہت تعاون کیا۔ وہ دن دوبارہ نہ آئے اللہ تعالیٰ ان کو جنت میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے آمین۔
آزاد کشمیر پی پی پی سعودی عرب کے مرکزی صدر سردار محمد فاروق خان نے کہا ہے کہ جب پونچھ کی سرزمین میں تحریک آزادی شروع ہوئی تو تمام کشمیر نے لوگوں کی ہمدردیاں پونچھ کے بے وطن حریت پسند عوام کے ساتھ تھیں۔کشمیر کے گوشے گوشے میں عوام نے ڈوگرہ کے خلاف نفرت کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ شیخ عبداللہ نے اپنے الفاظ میں یوں فرمایا کہ صرف پونچھ میں اسی ہزار سابق فوجی موجود ہیں وہاں کے عوام نے ڈوگرہ مظالم کےخلاف علم بغاوت بلند کر دیا ہے یہ سابق فوجی اپنے بیوی بچوں کو پاکستان کے علاقوں میں اپنے رشتے داروں کے پاس بھیج کر خود ہتھیار بند ہو کر میدان عمل میں اتر آئے ہیں۔ انہوں نے ڈوگرہ سے ہتھیار چھین کر اپنے آپ کو مسلح کر لیا ہے۔ اس طرح جنگ آزادی کے وقت کشمیر کی واحدمضبوط جماعت تین گروہوں میں تقسیم ہو چکی تھی اول چودھری حمیداللہ گروپ دوم میر واعظ گروپ اور سوئم سردار محمد ابراہیم خان گروپ اول گروپ خود مختار کشمیر کا حامی تھا دوم گروپ نے تحریک سے حکومت کے کہنے پر منہ موڑ لیا۔ اور سوم گروپ پونچھ میں کشمیر کی آزادی کیلئے سردار محمد ابراہیم خان کی قیادت میں برسرپیکار تھا۔ اس گروپ کی سرگرمیاں مہاراجہ کے خلاف تھیں۔ سردار ابراہیم خان نے جب سری نگر میں کھل کر جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد پاس کی تو حکومت کشمیر نے انہیں نظر بند کر دیا۔سردار ابراہیم خان روزئی قبیلہ مع سردار عبدالقیوم خان اور باغ کے دوسرے قبائل کے جو تحریک آزادی میں بلاواسطہ شریک رہے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے ساتھ شمولیت کیلئے اور ڈوگروں سے اپنی آزادی کیلئے لڑ رہے تھے۔ ان کا جدوجہد آزادی میں حصہ پاکستان کے ساتھ الحاق کیلئے تھا۔

ای پیپر دی نیشن