تحریروں میں سمٹتے کہاں ہیں دلوں کے درد
جی کو بہلا رہا ہوں ان کاغذوں کے ساتھ
اس ملک وقوم پر جو گزرتی ہے وہ سب کا سب رقم ہو نہیں سکتا۔ ایک تو احساسات کی وہ شدت ناپید ہے کہ جو حضرت علامہ اقبالؒ نے مسلم امہ کیلئے محسوس کی تھی اور دوسرا دکھ درد کے موسموں کے سلسلے ہی اتنے طویل اور گھمبیر ہو چکے ہیں کہ سمیٹنا دشوار ہوتا جا رہا ہے مگر کہتے ہیں کہ چور چوری سے جائے بھی تو ہیرا پھیری سے نہیں جا سکتا۔
اسی طرح شاعر شاعری سے نہیں جا سکتا۔ بہانے بہانے سے بھی شہر کہہ سُن لیتا ہے ایسے میں کسی شاعر کو مشاعرے کا سجا سجایا پنڈال مل جائے ایک ایسا پنڈال کہ جہاں چاندی میں چاندنی بچھی ہوئی ہو روپہلی رنگوں کے گاو¿ تکیے لگے ہوئے ہوں اور سخن شناس حاضرین محفل بھی خاصی معقول تعداد میں موجود ہوں جن میں خواتین کی تعداد بھی آٹے میں نمک کے برابر نہیں بلکہ بہت زیادہ ہوت تو سمجھیں کہ سارا منظر ہی مکمل ہو گیا ہے۔ ایسے ہی ایک مکمل منظر سے سچی تقریب کی خوبصورت تصویر کے بارے میں معروف شاعر رحمان فارس سے تقریب کے اختتام پر درخواست کی کہ اس کی تفصیل یعنی مہمانوں کے نام کی فہرست وغیرہ لکھ کر مجھے دے دیں تاکہ غلطی کا کوئی امکان نہ رہے کیونکہ میں لاہور میں مہمان ہوتی ہوں اور شخصیات کے ساتھ ناشناسائی کی وجہ سے غلطی .... ہے۔
مشاعرے کے دوران سب لوگ ڈنر کی اشتہا انگیز خوشبو کو کافی دیر سے برداشت کر رہے تھے۔ لہٰذا تقریب کے اختتام پر حلوہ پوری، چکن چنے اور سلاد اچار سے لطف اندوز ہونے لگے مگر رحمان فارس ایک کونے میں بیٹھ کر تحریر لکھنے میں مگن رہا جو بعد میں اس نے بھی لا کر دی وہ تحریر ”جوں کی توں“ آپ سب کیلئے ہے کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ شاعر خواتین و حضرات کیلئے نثر نگاری دشوار ہو جاتی ہے یا پھر شاعری اور نثر دونوں میں یکساں معیار رکھنا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔ اُدھر کالم یا نثر میں شہ پارے نظر آئے تو دوسری طرف شاعری ڈگمگانے لگی یا پھر ادھر بہترین شاعری آئی تو نثر نگاری کا دامن تنگ ہوتا چلا گیا حتیٰ کہ بے وجود بے معنی اور بے وقعت تحریر سامنے آنے لگتی ہے۔
رحمان فارس نے تقریب کے بارے میں مجھے کچھ یوں لکھ کر دیا ”اقبال مظفر ڈائریکٹر جنرل (FBRI ریٹائرڈ) کے ہاں انکی لاہور کی رہائش گاہ میں ایک بھرپور شعری نشست کا اہتمام کیا گیا، حویلی کشادہ صحن میں بچھی چاندنیوں، گاو¿جکسوں، آنگن میں لگی رات کی رانی کی مہک اور چودھویں رات کے چاند نے ایک یادگار تاثر قائم کیا جس کو نامور شعراءاور شاعرات نے اپنے کلام سے دوآتشہ کر دیا۔ اس نشست کی نظامت نوجوان شاعر رحمان فارس نے کی۔ برصغیر پاک وہند کے نامور شاعر مرتضٰی برلاس نے صدارت کی۔ مہمان خصوصی آزاد کشمیر سے تشریف لائے ہوئے شاعر احمد عطاءاللہ اور اسلام آباد سے تشریف لائی ہوئی نوائے وقت کی کالم نگار اور معروف شاعرہ عائشہ مسعود تھیں۔
عباس تابش کی شاعری نے سماں باندھ دیا اسکے علاوہ مشاعرے میں فرحت زاہد، زاہد سعید زاہد، سبطین رضا اور اقبال مظفر نے بھی اپنا خوبصورت کلام پیش کیا۔ رحمان فارس کی اس خوبصورت اور مکمل روداد تقریب کی تصویر کے سارے رنگ آپ نے دیکھ لئے۔
شاعر حضرات کو یاد ہوگا کہ مرتضٰی برلاس نے بطور ڈپٹی کمشنر بہاولپور کئی یادگار مشاعرے ترتیب دیئے تھے اور یہ مشاعرے چاند کی چودھویں کو ”شب مہتاب“ کے نام سے منعقد کئے جاتے تھے عباس تابش کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ انہوں نے تسلیم کیا کہ مشاعروں کے انعقاد کے ذریعے کسی طالب علم شاعر ادیب کی مدد بھی ہو جاتی ہے کیونکہ زمانہ طالب علمی میں ملنے والی تھوڑی سی رقم کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور خود عباس تابش مشاعرے میں ملنے والے پیسوں سے فیس جمع کروا دیا کرتے تھے۔ مرتضٰی برلاس نے تقریب میں یہ بات بھی بتائی کہ اپنی پروفیشنل یا دفتری زندگی کے امور میں بھی انہوں نے عمر بھر کبھی ”انگلش“ میں دستخط نہیں کئے۔ اور یہ شعر مرتضٰی برلاس کی کلیات کا پہلا شعر ہے....
میرا جو افتخار ہے میری زبان ہے
اُردو میں اپنے کرتا ہوں میں دستخط تمام!
بلکہ صرف اردو میں دستخط کئے انہوں نے تقریب میں گفتگو کے دوران کہا کہ میری شاعری کا محور و مرکز میرا وطن ہے کیونکہ مجھے اس کی مٹی سے عشق ہے اور یہ وطن ہی میرا محبوب ہے سب جانتے ہیں کہ مرتضٰی برلاس برصغیر کے اہم شاعر ہیں مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومتی سطح پر بیٹھا ہوا طبقہ اس بات سے بے خبر ہے کیونکہ ملک بھر میں جہاں کسی کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے وہاں انہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے حالانکہ مرتضٰی برلاس جسے پڑھے لکھے ایماندار اور محب وطن بیورو کریٹ سے بعض معاملات میں بڑی اہم مشاورت بھی کی جا سکتی ہے لیکن اس کیلئے میر کارواں کو رختِ سفر کی خوبیاں کا معلوم ہونا ضروری ہے....
نگہ بلند، سُخن دلنواز، جان پرسوز
یہی ہے رختِ سفر میر کارواں کے لئے
کل شب اقبال مظفر کی خوبصورت حویلی میں منعقد ہونے والا یہ مشاعرہ تو ختم ہوگیا یہی مشاعرہ اس حویلی کی بجائے کسی بن گلے میں ہوتا، فائیو سٹار ہوٹل میں ہوتا یا پھر اس مشاعرہ میں بچھی ہوئی سفید چاندنیاں نہ ہوتیں یا چاندنی رات نہ ہوتی یا پھر ہمارے اپنے مخصوص پکوانوں کی خوشبوئیں نہ ہوتیں تو اس تقریب کی خوبصورتی اتنی زیادہ نہ ہوتی اس تقریب کی ساری خوبصورتی میں ہمارے اپنے رنگ، اپنے کھانے اور اپنے انداز شامل تھے کہ جس میں پرائی ثقافت کی کوئی بات شامل نہیں تھی کیونکہ کچی مٹی پر چلنے اور سنگ مرمر پر چلنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔
”اقبال مظفر کی شب مہتاب اور مرتضٰی برلاس سے حکمرانوں کی بے خبری“
Oct 12, 2013