12اکتوبر کا ہندسہ ملکی تاریخ سے ایک ڈراﺅنے خواب کی مانند چپک کر رہ گیا ہے یہی وہ منحوس دن تھا جب ایک طالع آزما فوجی جرنیل نے وطن عزیز میں میاں محمد نواز شریف کی منتخب عوامی ،جمہوری اور فلاحی حکومت پر شب خون مار کر اقتدار سنبھالا اور پھر اپنے اس ناجائز اقتدار کو طول دینے کی خاطر ایسے خوفناک اور گھناﺅنے اقدمات کیے کہ اندھیرے، مایوسیاں، خود کشیاں اور مصائب وآلام مستقل اس ملک و قوم کا مقدر بنا کر رکھ دئیے گئے قوم آج بھی افراتفری، مہنگائی،، کرپشن، لاقانونیت ، دہشت گردی اور بجلی و گیس کی طویل لوڈ شیڈنگ کی صورت میں عذاب جھیل رہے ہیں۔12اکتوبر1999ءتک ملک میں آئین کی حکمرانی تھی، قانون کا بول بالا تھا، قومی معیشت مستحکم اور پاکستان خوشحالیوں کی راہ پر گامزن تھا۔ ریلوے، پاکستان سٹیل ملز،لاجواب لوگوں کی باکمال سروس "PIA" منافع میں جا رہی تھی۔ بیرونی سرمایہ کاری میں روز افزوں اضافہ ہو رہا تھا۔ ہر طرف زندگی رواں دواں ، پر جوش ، حب الوطنی اور امن و امان کا دور دورہ تھا۔ میاں نواز شریف کی قیادت میں ملک کو ایشیئن ٹائیگر بنانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر آرہا تھا کہ پھر یکایک پرویز مشرف کے اس گھناﺅنے اقدام سے نہ صرف قائدین مسلم لیگ ن کو قید خانوں کی صعوبتیںاورفیملی سمیت جبری سات سال جلا وطنیاں کاٹنا پڑیں بلکہ لال مسجد اور جامع حفصہ کی شہادت، نواب اکبر بگٹی قتل،دختر قوم ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی امریکہ کو حوالگی،عدلیہ کی تذلیل،ججز کی معزولی، سول سوسائٹی ، سیاسی کارکنوں کی اسیریاں اور وکلاءکی شہادتیں،آمریت کے خلاف آواز بلند کرنے والے شرفاءکا پاکستانی ایجنسیوں کے ہاتھوں اغواءاور بلوچستان میں جاری شورش جیسے واقعات اور سانحات سے ملکی تاریخ کا خوبصورت چہرہ ،داغ دار ہو کے رہ گیا۔ چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ پرویز مشرف نے سابق امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ کولن پاﺅل کی صرف ایک ٹیلیفون کال پر ،پُرامن ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کو غیروں کی لگائی آگ میں جھونک دیا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کے مکروہ منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے پاکستانی عوام کو ایک سازش کے تحت مسائل سے دوچار کر دیا گیا ہے۔ راقم خود بھی پرویزی آمریت کا شکار رہا اور 12اکتوبر کی شب لاہور میں کھڑے ہو کر پرویزی آمریت کو چیلنج کرنے کا سب سے پہلا اعزاز حاصل کیا اور پھر مشرف کا تمام آمرانہ دور جیلیں، ہتھکڑیاں، جھوٹے مقدمات اور تشدد برداشت کرتے ہوئے گزار دیا۔
محترمہ بیگم کلثوم نواز صاحبہ کے شیخوپورہ آمد کے اعلان پر راقم کے ضعیف باپ کو 83سال کی عمر میں ٹریکٹر چوری کا جھوٹا مقدمہ بنا کر فاروق آباد صدر تھانے کی حوالات میں بند رکھا گیا۔ظلم کی انتہا پرویز مشرف کی آمریت میں درویش صفت میاں محمد شریف مرحوم کے جسد خاکی کے ساتھ انکے اہل خانہ کو اپنے وطن آنے کی اجازت تک نہ دی گئی۔ شریف خاندان کے بیٹوں کی طرح لاتعداد مسلم لیگ ن کے ورکروںکو بھی انکے ماں باپ اور عزیزوں کے جنازوں کو کندھا دینا نصیب نہ ہوا۔دہشت گردی اور مشرف کے رو سیاہ فیصلوں کے باعث وطن کے جسم سے رسنے والے خون نے ابھی تک میرے ہم وطنوں کو رنجیدہ کر رکھا ہے لیکن یقین محکم ہے کہ جس طرح موجودہ حکومت ملک کو سابق حکمرانوں کے اللے تللوں سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ کرنے میں جہد مسلسل سے کام لے رہی ہے اسے کچھ وقت تو ضرور لگے گا مگر قوم میں باہمی نفرت کا جو بیج پرویز مشرف بو گئے ہیں اس کا ازالہ کرنا فی الحال ممکن ہی نہیں۔مشرف کے نو سالہ دور اقتدار میں ہر قومی ادارہ تباہ کر دیا گیا، دنیا کی بہترین سپاہ افواج پاکستان کا مورال گرا دیا گیا۔محب وطن پاکستانیوں کو ڈالروں کے عوض امریکہ کو فروخت کیا گیا۔ لاپتہ ہونیوالے افراد کے لواحقین آج بھی سڑکوں پر ، عدالتوں میںاور پبلک مقامات پر نوحہ کناں ہیں۔ 11مئی 2013کے انتخابات میں عوام نے اپنے ووٹ کا وزن مسلم لیگ ن کے پلڑے میں ڈال دیا کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف ہی قوم کو مسائل کے منجھدار سے نکال کر روشنی میں لائیں گے۔ بعض نام نہاد اینکرز نجی ٹی وی چینلوں پر حکومت کو اپنے پہلے تین ماہ میں ہی ناکام ہونے کے طعنے دینا شروع ہو گئے ہیں۔ وہ یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ 12اکتوبر1999ءسے لے کر گیارہ مئی 2013ءتک کا درمیانہ عرصہ چودہ سال بنتا ہے ۔ گذشتہ ان چودہ سالوں میں کچھ وقت تک پرویز مشرف اور اس کے حواریوں نے دونوں ہاتھ قومی خزانے پر صاف کئے بقیہ عرصہ مسٹر سینٹ پرسنٹ آصف علی زرداری اور مسٹر گیلانی ، راجہ رینٹل اور ان کے چیلے چانٹوں نے اپنے ذاتی اثاثوںمیں بے تحاشہ اضافہ کیا ان کے ڈالے گئے گند کو صاف کرنے کیلئے کچھ عرصہ ضرور درکار ہے۔ قومی خزانہ اپنی بے بسی کا نوحہ پیٹ رہا ہے ایک ڈکٹیٹر کے اپنے اقدامات اور اعمال آج خود اس کے اپنے پاﺅں کی زنجیر بن کر رہ گئے ہیں۔ کل کے قیدی آج عوام کی آنکھوں کا تارا اور حکمران ہیں اور کل کا ڈکٹیٹر حکمران آج ایک معتوب قیدی !!!