معیاری میڈیکل کالجز قائم کر کے ڈاکٹر بنانے میں قصاب نہیں: چیف جسٹس

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں ایک میڈیکل کالج )ناردرن انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز( کا ’پی ایم ڈی سی‘ سے الحاق نہ ہونے سے متعلق پشاور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل کی سماعت ہوئی۔ عدالت نے اپیل واپس لینے کی بنےاد پر معاملہ نمٹا دے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے معیاری میڈیکل کالجز قائم کر کے ڈاکٹرز بنانے ہیں، قصائی نہیں تیار کرنے، یہ انسانی جانوں کا معاملہ ہے، عدالت سے وہی رجوع کریں جن کے اپنے ہاتھ صاف ہوں، ان لوگوں نے قوم کی بچیوں کا مستقبل تباہ کیا ہے، میڈیکل کے شعبہ میں ایسی ہی زیادتیوں کی وجہ سے ہی یہ شعبہ تباہ ہوا ہے، پچھلے دنوں تو پی ایم ڈی سی میں الحاق کاروبار ہی بنا ہوا تھا، پیسہ دو اور الحاق کروا لو، سیکرٹری کو بلوا لیتے ہیں اور کئی نئی چیزیں سامنے آجائیں گی، یہ لوگ اتنے بااثر ہیں کہ سیکرٹری بھی ان کے سامنے بے بس ہے۔ غریبوں کے بچے نجانے کتنی مصیبتوںسے ڈاکٹر بننے کے لئے آتے ہیں، ان کے ساتھ اتنا ظلم نہ کریں، جو شخص پیسہ ڈالتا ہے اسے الحاق مل جاتا ہے، جب اس ادارہ کو پاکستان میڈیکل اینڈ دینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) نے منظوری ہی نہیں دی ہے تو آپ یہ کالج کیسے چلا سکتے ہیں؟ جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کسی بھی میڈیکل کالج کا الحاق ہی اس کی کنجی یا بنیاد ہوتا ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ پر مشتمل دو رکنی خصوصی بنچ نے جمعہ کے روز ناردرن انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسزکی پشاور ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔ دوران سماعت ایک طالبہ نے کہا ہم غریب خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں، امیروں کے بچوں کو تو خلاف میرٹ بھی داخلے مل جاتے ہیں ہمارا کیا ہو گا؟جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اب ملک میں میرٹ کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہو گی۔ آن لائن کے مطابق جسٹس افتخار چودھری نے ریمارکس دیئے کہ ملک کے تمام ادارے تباہ کر دیئے گئے۔ایک میڈیکل کا شعبہ بچ گیا اب اس کو بھی غیر معیاری میڈیکل بنا کر تباہ کیا جا رہا ہے۔ پیسے دو کالجوں کی منظوری لو۔ یہ اب کاروبار بن گیا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...