آج سے پندرہ سولہ سال پہلے ہم نے اپنے کالم میں مشہور زمانہ یہ شعر…؎
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے
علامہ اقبال کے نام سے منسوب کیا تو اس وقت کے ایک بڑے سکول کے صاحب عمل ہیڈ ماسٹر نے خط لکھ کر اعتراض کیا کہ یہ شعر علامہ اقبال کا نہیں۔ ان کا ایک ہم عصر سید صادق حسین ایڈووکیٹ کا ہے۔ جن کا تعلق اتفاق سے علامہ ہی کے ضلع سیالکوٹ سے ہی تھا شکر گڑھ کے رہنے والے تھے۔ اس پر بھی ہماری تسلی نہ ہوئی۔ تو ہم نے اقبال کا شائع شدہ سارا کلام چھان مارا، لیکن یہ شعر کہیںنہیں ملا، اور یہ بیقراری کئی دنوں تک برقرار رہی، تاوقتیکہ ہمارے دوست ایک معروف شاعر یعقوب پروانہ نے بھی اسکی تصدیق کر دی، بلکہ یہاں تک واضح کر دیا کہ سید صادق حسین ایڈووکیٹ کا یہ شعر، برگ سبز کے نام سے شائع ہونے والے انکے مجموعہ کلام کی ایک نظم میں موجود ہے جو اسکے صفحہ 65,64 پر شائع ہوئی۔اس پر انہوں نے اس حیرت کا بھی اظہار کیا۔ کہ ہمارے بڑے بڑے شاعر اور ادیب بھی اس حقیقت سے خبر ہیں، اس سے جہاں علامہ اقبال کے بلند پایہ فکرکی بے توقیری ہوتی ہے۔ وہاں اس شعر کے خالق کے ساتھ بھی ناانصافی ہوئی ہے وہ کہتے ہیں۔ انہیں اگر سید صادق حسین کی یہ پوری نظم کو پڑھے کا موقع ملے، تو وہ اس کو علامہ اقبال سے منسوب کرنے کی کبھی غلطی نہ کریں۔ کہ اس میں کہیں بھی علامہ اقبال کا فکری پرتو نظر نہیں آتا، سوائے اس شعر کے کہ یہ اس بناء پر علامہ سے منسوب ہوا کہ اس میں عقاب کا ذکر آیا ہے۔
جو علامہ کی فکری جہت کا استعارہ ہے لیکن اس بے خبری کا کیا جائے کہ ہمارے بڑے بڑے عالم اور صاحب دانش لوگ اس غلطی فہمی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ کہ ہم نے بہت سے اقبال شناس لوگوں کو بھی یہ غلطی دہراتے ہوئے پڑھا اور سنا ہے، یہاں تک کہ ہم نے عباس اطہر مرحوم، حسن نثار، کرنل اکرام اللہ، جیسے صاحب مطالعہ کالم نگاروں کو بھی اپنے کالموں میں اس غلطی کا ارتکارب کرتے ہوئے پڑھا ہے اور تو اور ڈاکٹر احمد مرحوم جو اپنے وقت میں اقبال پر اتھارٹی سمجھے جاتے تھے، انہوں نے بھی روزنامہ نوائے وقت میں چھپنے والے ایک مضمون میں اس شعر کو علامہ اقبال کے حوالے سے تحریر کیا تھا تو ہم نے اپنے ایک کالم کے ذریعے انکی اس غلطی کی نشاندہی کی تھی تو انہوں نے کمال وضعداری سے اس کا اعتراف کیا، اور معذرت بھی کی۔ اسی طرح پچھلے یوم اقبال کے حوالے سے ایک ایف ایم ریڈیو ایک پروگرام نشر ہو رہا تھا جس میں ایک خاتون اقبال کی شاعری کے محاسن بیان کرتے ہوئے، اس شعر کو ان سے منسوب کر کے اپنے علم کا دریا بہا رہی تھیں۔ تو ہم نے انہیں اسی وقت فون کر کے بتایا کہ محترمہ یہ شعر علامہ اقبال کا نہیں ان کے ایک ہم عصر سید صادق حسین ایڈووکیٹ کا ہے، تو وہ شرمندہ سا ہو کر رہ گئیں اور پھر اپنے اسی پروگرام میں ہمارا نام لے کر اسکی تصحیح کردی، اور اپنی طرف سے معذرت بھی کر لی لیکن یہاں حیرانگی کی بات یہ ہوتی، کہ اس پروگرام کے ختم ہونے کے بعد ایک اور صاحب اقبال پر لب کشاں ہوئے، تو انہوں نے بھی اپنے پروگرام کا آغاز، اقبال سے منسوب کرتے ہوئے اسی شعر سے ہی کیا۔ اور ہمیں ایک بار پھر فون کر کے انکی اصلاح کرنی پڑی۔ ٹی وی کے ایک پرائیوٹ چینل پر ان دنوں معروف کالم نگار آفتاب اقبال ایک کامیڈی پرگرام پیش کر رہے ہیں، اس پروگرام میں وہ کامیڈی کے علاوہ، اردو میں زبان و بیان میں پائی جانیوالی غلطیوں کی اصلاح بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں ادب کی چاشنی کا رنگ بھی بھرتے میں لگے رہتے ہیں تو ہم نے ایک دفعہ دیکھا کہ انہوں نے اپنے اس پروگرام میں اقبال کے شیدائی معروف سکالر زاہد حامد کے ایک فرضی کردار کی زبان میں اقبال کے حوالے سے یہ شعر کہلوایا، تو ہم سر پیٹ کر ہی رہ گئے۔ کہ اتنے بڑے شاعر ظفر اقبال کا بیٹا، آفتاب اقبال بذات خود جو ایک بڑا کالم نگار اور اینکر پرسن بھی ایسی غلطی کرسکتا ہے اور یہ شعر ہمارے سیاست دانوں کو تو اس قدر مرغوب ہے کہ وہ جب کبھی ایسی صورتحال سے دو چار ہوتے ہیں بلکہ اکثر ہوتے ہیں تو دل کو تسلی دینے کیلئے اسی شعر کا سہارا لیتے ہیں لیکن لاعملی میں یہاں غلطی کر جاتے ہیں کہ اس میں ناحق علامہ اقبال کو ملوث کرلیتے ہیں۔
سید یوسف رضا گیلانی جب وقت سے پہلے وزیراعظم کے عہدے سے سبکدوش کر دئیے گئے۔ تو ٹی وی کے ایک پروگرام میں دہائی دیتے ہوئے انہوں نے اقبال کے نام سے اس شعر کا حوالہ دیا تو ہمیں دکھ ہوا، کہ ایک ایسا شخص وہ ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز دیا اور اس نے جرنلزم میں ماسٹر کر رکھا ہے اس قدر لاعلم ہے، کہ اسے یہ بھی معلوم نہیں، کہ یہ شعر علامہ کا نہیں کسی اور کا ہے۔ اب عمران خان نے 5اکتوبر کی شام کو دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے اسی غلط فہمی کا ارتکاب کیا ہے کہ انہوں نے بھی عقاب کے بھلیکے میں اس شعر کو علامہ اقبال سے منسوب کیا ہے تو ہم یہاں ضروری سمجھتے ہیں کہ انکی بھی تصحیح کر لی جائے کہ شعر علامہ کا نہیں۔ اور وہ اس لئے بھی کہ وہ بذات خود اقبال کے نظرئیے اور کلام سے بیحد متاثر نظر آتے ہیں تو ہم بھی یہاں یہی چاہتے ہیں کہ انہیں علامہ کے کلام پر مکمل عبور حاصل ہو۔ کوئی تو ہو جو اقبال کے خوابوں کو پورا کرسکے۔ آنیوالا وقت عمران خان کیلئے کڑا امتحان لے کر آرہا ہے، اللہ ان کا حامی و ناصر ہو، اور وہ کامیابی کی راہ پر گامزن ہو سکیں۔