ایڈیٹر اخبار ’’ریاست‘‘ دیوان سنگھ مفتون اردو صحافت میں ایک بڑا نام ہے۔ انکا اخبار ہندوستانی ریاستوں کے معاملات، مہاوراجوں اور مہارانیوں، راجکماروں اور راجکما ریوں کے اسکینڈلز اور قصے کہانیوں سے بھر ہوتا۔ یہ چٹپٹے واقعات بڑی دلچسپی سے پڑھے جاتے۔ انکی معلومات کے ذرائع بہت وسیع تھے۔ پاکستان میں کسی فرشتے کو بھی علم نہیں تھا کہ حضرت قائداعظمؒ زیارت میں خطرناک طور پر علیل ہیں۔ سب سے پہلے یہ خبر ان کے اخبار ’’ریاست‘‘ میں ہی شائع ہوئی۔ اب نہ ریاستیں رہی ہیں، نہ ریاست اخبار اور نہ ہی اسکے ایڈیٹر دیوان سنگھ مفتون۔ انہوں نے اپنی یادداشتیں ’’ناقابل فراموش‘‘ کے نام سے لکھی تھیں۔ چند برس پہلے انکی کتاب کی دوسری جلد ’’سیف و قلم‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ پہلے اس کتاب میں سے ایک واقعہ پڑھ لیں پھر آگے چلتے ہیں۔ ’’انگریزوں کے زمانہ میں ایک الیکشن میں سیالکوٹ کے حلقہ سے کانگرسی امیدوار نہ صرف دنیاوی لحاظ سے بلکہ قابلیت کے لحاظ سے بھی معمولی تھا۔ اسکے مقابلہ میں ایک رائے بہادر تھے جو بہت بڑے رئیس اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ رائے صاحب کے مداحوں کا ایک وفد ووٹ کی ترغیب دینے کیلئے ایک ووٹر کے پاس پہنچا۔ اس وفد کے ایک ممبر نے جب یہ کہا کہ کانگریس کے امیدوار کے مقابلے پر رائے صاحب بہت لائق ہیں تو ووٹر نے جوا ب دیا: رائے صاحب چاہیں کتنے بھی لائق ہوں مگر وہ کانگریس کے امیدوار نہیں۔ ہم تو کانگریس کے نمائندے کو ووٹ دینگے۔ کانگریس چاہے کسی بازاری کتے کو کھڑا کردے‘‘۔ اب وہ ایک دوسری انتہا لکھتے ہیں کہ سیالکوٹ کے ہی رہنے والے ایک شخص کے پاس جواب پرانا قلعہ نئی دہلی میں آباد ہے، کانگریس کا ایک وفد ووٹ لینے کیلئے پہنچا تو اس کا جواب یوں تھا کہ ’’کانگریس کو ووٹ نہیں دونگا چاہئے بازاری کتے کو ووٹ دینا پڑے‘‘۔ یہ انتہا پسندانہ رویہ قطعاً غیر جمہوری ہے۔ پہلا شخص کانگریس سے وفاداری اور دوسرا کانگریس سے دشمنی کی بجائے کتنی لمبی عمر رکھتا ہوگا۔ یہ سیاسی جماعتیں چاہئے ’’منشوری بے راہ روی‘‘ کا شکار ہو جائیں کہ بیچارے وفادار پیر و کار جماعت سے چمٹے رہتے ہیں۔ بھلیا اوہدی اوہ جانے سانوں اپنی توڑ نبھاون دے‘۔ دیوان سنگھ مفتون کا لکھا یہ واقعہ مجھے سکہ بند جیالے جناب ضیاء اللہ کھوکھر کی فیس بک پڑھ کر یاد آیا۔ انہوں نے لکھا 10 ستمبر 1970ئ۔ یہ میری پیپلز پارٹی میں شمولیت کی تاریخ ہے‘‘۔ اس حساب سے انکی پیپلز پارٹی سے 45 سالہ وابستگی بنتی ہے۔ یہ لگ بھگ نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں۔ میں نے لکھا ’’وفاداری بشرط استواری اصل ایماں ہے‘‘ وفاداری بشرط استواری کے باب میں مرزا غالب کا شاعرانہ فتویٰ کچھ یوں ہے کہ ’یہی ایمان کی اصل ہے‘۔ اگر کوئی کافر اپنی پوری عمر بت خانے میں بسر کرکے مرتا ہے تو وہ کعبہ میں دفن ہونے کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ 1970ء میں جب پیپلز پارٹی زند ہ تھی تو لوگ کہاں پوچھتے تھے کہ ٹکٹ کسے ملا ہے؟ اس زمانہ کے راوی نے ساری داستان دو لفظوں میں بیان کردی۔ کھمبے جیت گئے، اس امید نے اب پھر کھمبے جیتیں گے 2013ء کے جنرل الیکشن میں تحریک انصاف کے انتخابی ٹکٹ کا بھائو بہت بڑھا دیا تھا۔ 1970ء میں لوگوں نے امیدواروں کو نہیں صرف تلوار کو ووٹ ڈالا تھا۔ تلواران دنوں پیپلز پارٹی کا انتخابی نشان تھا۔ پھر یوں ہوا کہ پیپلز پارٹی بیچاری انکے پلے پڑ گئی جنہیں غریبوں کے روٹی کپڑا مکان سے زیادہ اپنی ’’غربت دور کرنے کی فکر لاحق تھی۔ بھوکا پیٹ بھر جاتا ہے لیکن ندیدی آنکھ نہیں بھرتی۔ یہاں نہ ہی پیٹ بھر رہا تھا اور نہ ہی آنکھیں سیر ہو رہی تھیں۔ پھر پیپلز پارٹی کیسے زندہ رہتی۔ اب NA-122 میں پیپلز پارٹی کا امیدوار سب سے زیادہ پڑھا لکھا ہے۔ دوسری جماعتوں کے امیدواروں کی عزت و احترام میں کلام نہیں، مجھے صرف پیپلز پارٹی کے امیدوار کا علمی مقام، مرتبہ بتانا مقصود ہے۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار بیرسٹر عامر حسن لنکنز ان سے بار ایٹ لاء ہیں۔ NA-122 میں ارائیں ووٹوں کی موثر تعداد موجود ہے۔ صرف پیپلز پارٹی کے امیدوار بیرسٹر عامر حسن ارائیں برداری سے تعلق رکھتے ہیں۔ پھر بھی وہ میر تقی میر کے لفظوں میں پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں’۔ ان کا ایک سپورٹر کہہ رہا تھا کہ بیرسٹر صاحب صرف با عزت شکست چاہتے ہیں۔ آہ! کیا بھٹو پارٹی کی قسمت میں یہ دن دیکھنے بھی لکھے تھے۔ یہ لاہور میں پیپلز پارٹی کے زوال کی کہانی ہے۔ یہ وہی لاہور ہے جہاں محترمہ نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کے استقبال کیلئے لوگ ایئرپورٹ سے شاہدرہ موڑ تک رات بھر کھڑے رہے۔ واقعی تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ برے دنوں میں دوستوں کی دوستی اور دلداری کا انداز بھی دیکھئے۔ شاید کرپشن ہی اتنی ہے کہ چھپائے بھی نہیں چھپ رہی۔ اب اسکا جوار ڈھونڈا جا رہا ہے۔ یہ عذر گناہ بد تراز گناہ، والا معاملہ بن گیا۔ کالم نگار نذیر ناجی نے پچھلے دنوں لکھا ’’بینظیر بھٹو کی حکومت کے پہلے روز ہی اسے حکومت سے نکالنے کیلئے بے محابہ دولت کا استعمال شروع ہو گیا تھا۔ اگر آصف زرداری اسکا شوہر نہ ہوتا اور اس نے کرپشن سے بے شمار دولت اکٹھی نہ کی ہوتی وہ اپنے بچائو کیلئے شاید جوابی حربے استعمال نہ کرسکتی‘‘۔ جب میرا یہ کالم شائع ہو گا تو NA-122 کا الیکشن رزلٹ آچکا ہوگا۔ یہاں پیپلز پارٹی کا ٹکٹ ہولڈر اپنی انتخابی مہم نہیں چلا رہا۔ پیپلز پارٹی کے جنازے کیساتھ بیٹھا ہوا ہے۔ اسے جنازہ اٹھانے کیلئے چار بندے بھی دستیاب نہیں۔ ان حالات میں جناب ضیاء اللہ کھوکھر کی پاکستان پیپلز پارٹی سے پینتالیس سالہ رفاقت، محبت اور دوستی سے اگلی منزل ہے۔ یہ منزل شعیب بن عزیز نے یوں بیان کی ہے
عاشقی سے کیا مطلب دوستی کا دعویٰ کیا
ہم ترے فقیروں میں ہم ترے غلاموں میں
مشہور زمانہ نظم، ہر گھر سے بھٹو نکلے گا، تم کتنے بھٹو ماروگے، لکھنے والے جہلم کے نصیر کوی اس بات کو کچھ اور واضح کرتے ہیں: ’ہم بھٹو کے دیوانے ہیں‘ یہ جان امانت بھٹو کی‘۔ یہ لوگ بھی عجب ڈھب کے لوگ ہیں۔ انہیں اپنی بے گھری سے زیادہ اپنے مذہبی اور سیاسی رہنمائوں کے ’سوہنے اور اچے‘ بنگلوں کی فکر رہتی ہے۔ پھر اسی پر نازاں ہیں کہ پیر جی کا بنگلہ بجلی کے چراغوں سے روشن ہے، خیر ہے جو ہمیں روشنی کیلئے مٹی کا دیا بھی میسر نہیں۔ حالانکہ بادشاہوں کے مامور من اللہ ہونے کا دعویٰ کے مقابلے میں ریاست اور فرد کے درمیان ایک معاہدہ عمرانی ہونے کا تصور انسانی تاریخ میں بہت گہرا ہے۔ یہ مکالمات افلاطون سے لے کر ہندوئوں کے ارتھ شاستر تک میں جھلکتا ہے۔ مسلمانوں میں اس تصور کی وضاحت فارابی نے کی۔ پھر جدید دنیا میں اس کے شارع جان لاک اور روسو ہیں۔ معاہدہ عمرانی ایک تصوراتی معاہدہ ہے جو فرد اور ریاست کے درمیان طے پاتا ہے۔ دونوں فریق اسے نبھانے کے پابند ہیں۔ یہ یکطرفہ ہرگز نہیں۔ ایک سیاسی لیڈر اور پیروکار کے درمیان رشتہ میں یہی فکر کار فرما ہونی چاہئے۔ یہاں فرد کا مفاد انفرادی نہیںقومی، اجتماعی اور معاشرتی ہونا چاہئے۔
معاہدہ عمرانی اور پینتالیس سالہ جیالاپن
Oct 12, 2015