لاہور (ندیم بسرا) وزارت پانی و بجلی، واپڈا، ارسا حکام اور آب پاشی پنجاب کی ناقص منصوبہ بندی کے باعث صوبوں کے درمیان پانی تنازعات ختم نہ ہو سکے 11 برسوں کے بعد بھی پانی کی تقسیم کے نظام کو شفاف بنانے کیلئے ڈیمز، دریاو¿ں، بیراجز اور نہروں پر ٹیلی میٹری سسٹم کی تنصیب نہ ہوسکی۔ بتایا گیا ہے کہ 2004ءمیں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے نظام کو شفاف بنانے کیلئے منگلا ڈیم، تربیلا، نوشہرہ، کالا باغ، چشمہ تونسہ، رسول، مرالہ، خانکی، قادر آباد، تریموں، پنجند، سدھنائی، بلوکی، سلیمانکی، اسلام، گدو بیراج، سکھر، کوٹری، پٹ فیڈر کینال سمیت 23مقامات پر ٹیلی میٹری سسٹم نصب کرنے کی منظوری دی گئی۔ 32کروڑ روپے میں جرمنی کی کمپنی سے ٹیلی میٹری سسٹم خریدا گیا جسے نصب اور آپریشنل کرنے کی ذمہ داری واپڈا کے سپرد کی گئی تھی ۔ اس سسٹم کی تنصیب سے پانی کے بہاو¿ کے اعدادو شمار سیٹلائٹ سسٹم سے منسلک خود کار آلات کے ذریعے موصول ہونے تھے تاہم ٹیلی میٹری سسٹم کی تنصیب کے آغاز پر ہی تکنیکی مسائل کا سامنا رہا اور اس سسٹم کے ذریعے پانی کے بہاو¿ کے موصول ہونے والے اعدادو شمار غلط تھے اور ان میں ہزاروں کیو سک کا فرق تھا جو مینوئل سسٹم سے موصول ہونیوالے اعداد و شمار سے مطابقت نہیں رکھتے تھے ۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) اور صوبوں نے ٹیلی میٹری سسٹم کی کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کیا بعد میں واپڈا نے تکنیکی نقائص درست کئے بغیر ہی ٹیلی میٹری سسٹم ارسا کے کنٹرول میں دیدیا وفاقی وزارت پانی و بجلی نے ٹیلی میٹری سسٹم فراہم کرنے والی جرمن کمپنی کو ہدایات جاری کیں کہ وہ سسٹم کے نقائص دور کرے۔ ارسا نے ٹیلی میٹری سسٹم کے نقائص دور کرنے کیلئے ایک غیر ملکی کنسلٹنٹ ہائر کیا لیکن اس کے باوجود سسٹم کے نقائص دور نہیں کئے جا سکے۔ ارسا حکام ٹیلی میٹری سسٹم کی خرابیوں کیلئے واپڈا کو ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں سسٹم کو آپریشنل کرنے کیلئے کروڑوں روپے خرچ ہو چکے ہےں لیکن صوبے پانی کے بہاو¿ کے اعداد و شمار مینوئل سسٹم کے ذریعے ہی اکٹھے کر رہے ہیں۔ محکمہ آبپاشی کے مطابق ٹیلی میٹری سسٹم غلط طور پر ڈیزائن کیا گیا تھا اس کو آپریٹ کرنے میں بھی خامیاں تھیں۔ دلچسپ امر یہ ہے اتنے برس گزرنے کے بعد بھی منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔
پانی/ تنازعات