لاہور ، اسلام آباد (رفیعہ ناہید اکرام+ ایجنسیاں) پاکستان سمیت دنیا بھر میں گزشتہ روز بچیوںکا پانچواں عالمی دن منایا گیا۔ اس دن کومنانے کا مقصد لڑکیوںکو درپیش مسائل، صنفی امتیاز، مساوی مواقع کی عدم دستیابی، بنیادی انسانی حقوق کے حصول میں مشکلات اور مظالم و تشددکی طرف دنیاکی توجہ مبذول کروانا ہے۔ اقوام متحدہ کے اداراہ برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت (یونیسکو) کے مطابق دنیا بھر میں پرائمری سکول جانے کی عمر والی 3 کروڑ 10 لاکھ بچیاں سکول نہیں جا رہیں۔ رپورٹ کے مطابق نائیجیریا، پاکستان اور ایتھوپیا وہ تین ممالک ہیں جہاں ایسی بچیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ بچوں کیلئے کام کرنے والے بین الاقوامی امدادی ادارے ’’سیو دا چلڈرن‘‘ نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ہر سات سیکنڈ میں 15 سال سے کم عمر ایک بچی کی شادی ہو جاتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت، افغانستان، یمن اور صومالیہ جیسے ممالک میں دس سال تک کی عمر کی لڑکیوں کی ان کی عمر سے بہت بڑے مردوں سے شادیاں ہو رہی ہیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ کم عمری کی شادی سے کسی لڑکی کی پوری زندگی متاثر ہو سکتی ہے۔ یہ رپورٹ گزشتہ روز منائے جانے والے لڑکیوں کے بین اقوامی دن کے موقعے پر جاری کی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غربت و افلاس لڑکیوں کی کم عمری کی شادی کے اہم عوامل ہیں۔ کئی افغان صوبوں میں خواتین کیلئے علیحدہ جیل نہیں، سزا پانے والی خواتین قبائلی عمائدین کے سپرد کر دی جاتی ہیں۔ انسانی حقوق تنظیموں نے افغان حکومت سے معاملہ حل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان کی لاکھوں لڑکیاں مختلف قسم کے تشدد کا شکار ہیں اور دنیا بھر کی کروڑوں لڑکیاں بنیادی تعلیم سے محروم ہیں جبکہ اکثریت کو علاج کی مناسب سہولتیں میسر نہیں۔ غریب اور محنت کش لڑکیوںکی زندگی کی تلخیاں انکی پیدائش کے روز سے ہی شروع ہو جاتی ہیں، غذائی قلت، خون کی کمی، بھائی کے مقابلے میں کمتر سلوک، مار پیٹ، گالی گلوچ، ناپسندیدہ ناموں سے پکارے جانا اور چائلڈ لیبر، تفریح کے مواقع کی عدم دستیابی، رائے کی آزادی نہ ہونے وغیرہ جیسے مسائل کا انہیں بچپن سے ہی سامنا رہتا ہے۔ پاکستان میں لاکھوں لڑکیاں ڈومیسٹک ورکر، بھٹہ مزدور، ہوم بیسڈ ورکرز، سیلزگرلز اور فیکٹری ورکر کے طور پرکام کرتی ہیں مگر انہیں اپنی محنت کا معاوضہ مناسب ملتاہے نہ انہیں اوور ٹائم دیا جاتا ہے جبکہ کام کی تربیت اور مزید تعلیم کے مواقع بھی دستیاب نہیں۔ دریں اثناء نوائے وقت سے گفتگو میں چائلڈ ایڈووکیسی نیٹ ورک کے افتخار مبارک نے کہا کہ بچیاں تبدیلی کا باعث بننے کا طاقتور ذریعہ بن سکتی ہیں، ضرورت صرف انہیں حقوق اور مواقع کی فراہمی اور استحصال سے بچانے کیلئے اقدامات کرنے کی ہے۔