ارشاد رب العزت ہے
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ
(ترجمہ)اور ہم تمہاری آزمائش کر کے رہیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور مال و جان اور پیداوار کے کچھ نقصان سے اور (اے پیغمبر،) صبر کرنے والوں کو (فتح و کامرانی) کی بشارت دے دو۔(سورہ بقرہ 155)
تاریخ گواہ ہے کہ اس آیہ مجیدہ میں جن آزمائشوں کا ذکر کیا گیا ہے سوائے فرزند رسول ؐ امام حسین ؑ کوئی بیک وقت ان امتحانوں سے نہ گزر سکا۔ نواسہ رسول الثقلینؐ حضرت امام حسین ؑنے دین اسلام کی بقا کی خاطر دشت بلا میں ہر اس امتحان کا سامنا کیا جو وجود رکھتا تھا ،اپنا گھر بار لٹا دیااپنے اصحاب باوفا کی قربانی دی اپنے پیاروں کو بھوک اور پیاس سے بلکتے دیکھاانہیں ذبح ہوتے اور انکی لاشوں کو پامال ہوتے دیکھاحتی کہ اپنی مخدرات کی چادریں بھی قربان کردیں لیکن پائے استقلال میںذرا لغزش نہ آئی…؎
دوش نبیؐ پہ خود کبھی ،نوک سناں پہ سر کبھی
عشق کی بارگاہ میں ،یوں ہوا سرفراز عشق
دین خداوندی ، شریعت مصطفوی ؐاور انسانی اقدار کے تحفظ کیلئے ان عظیم مصائب پر صبر کرنیوالے حسین ؑ کو یوں فتح و کامرانی نصیب ہوئی کہ آج ہرقوم ،ہر زمانہ ، ہر انسان حسین کی عظمت و بزرگی کے سامنے سرجھکا رہا ہے
آج ہر باضمیر حسین کو اپنا پیشوا سمجھتا ہے ہر حریت پسند حسین ؑ کے کردار سے جذبہ کشید کرتا ہے ہر محروم و مظلوم حسین کے دامن سے وابستہ ہونا باعث نجات سمجھتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں لکھنے والا مورخ ایڈورڈ گبن یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے ’’حضرت امام حسین کی شہادت کا پردرد واقعہ بے رحم اور سنگ دل کو بھی متاثر کردیتا ہے ‘‘اور آزادی ہند کی تحریک کے دوران مہاتما گاندھی کہتا نظر آٹا ہے کہ : " حسینی اصول پر عمل کرکے انسان نجات حاصل کرسکتا ہے " ہیروز اینڈ ہیرو ورشپ کا مصنف کارلائل اعتراف کرتا ہے " " شہادت حسینؓ کے واقعہ پر جس قدر غور و فکر کیاجائیگا اسی قدر اسکے اعلیٰ مطالب روشنی میں آتے جائینگے۔" واشنگٹن ارونگ حیران نظر آتا ہے کہ ’’حسین پر پڑنے والی مصیبتیں ایسی نہ تھیں جو کسی بھی فرد کو اپنے ارداے پر قائم رہنے دیتیں لیکن حسین آخر دم تک اپنے عزم و ارادے پر قائم رہے ‘‘ ۔
محرم الحرام اپنے دامن میں غم و الم اور مصائب وآلام کی داستانیں سمائے ہوئے ہے۔یہ نواسہ رسول ؐ الثقلین شہزادہ ِ کونین حضرت امام حسینؓ سے خاص نسبت رکھتا ہے جنہوں نے جذبہ صادق کیساتھ اپنے جدِ نامدار رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پیغام کو استحکام و دوام بخشنے کیلئے فساد پیکروں سے نبرد آزما ہوکر اپنے72جانثاروں کے ہمراہ شہادت کو گلے لگایا اور ظلم و بربریت ،جبر و استبداد کو نابود کرکے عدل و انصاف کے الہی مکتب کی بنیاد رکھ کر انسانوں کو سرنوشت ساز عملی درس دیا۔آپ ؑ کا تاریخی انقلاب سیاسی حیثیت یا مالی فوائد کیلئے نہ تھا ۔بقول شاعر مشرق
مدعائش سلطنت بودے اگر
خود نہ کردی باچنیں ساماں سفر
آپ ؑ کا مقصدِ وحید اُمت کو ضلالت و گمراہی کے گڑھے سے نکالنا اور نجات دلانے کیلئے رشدو ہدایت سے نوازنا تھا۔آپ ؑ نے اس لیے قیام فرمایا تاکہ اُمتِ مسلمہ کی اصلاح کرکے امر بالمعروف او رنہی عن المنکر کا فرض ادا کریں اور خدا کی حاکمیت کا بول بالا ہو۔آج استعماری قوتیںپوری دنیا پر غلبہ کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں۔استعمار کی تخلیق کردہ دہشت گرد تنظیمیں دنیا بھر میں اسلام کو بدنام کرنے کیلئے کام کررہی ہیں مسلمانوں کو پارہ پارہ کردیا گیاہے ایک ایک ملک کے کئی کئی حصے کرنے کا ناپاک منصوبہ اپنی تکمیل کے قریب پہنچ چکا ہے ،مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑوایا جارہا ہے ،استعماری لیبارٹریوں میں تیار ہونے والے تکفیر کے فتوے لگانے والوں کو ہر انسان کی سلامتی کے خواہاں دین کے سر پرتھوپا جارہا ہے عالم اسلام کی دولت مسلم حکومتیں گرانے کیلئے صرف ہورہی ہے ، مسلمانوں کے مشاہیر کے مزارات نام نہاد مسلمانوں کے ہاتھوں تاراج کروائے جارہے ہیں۔یہود وہنود کی تھانیداری قائم کرنے کیلئے پوری اسلامی دنیا کو کچل دیا گیا ہے ۔ اس بحران در بحران کی خوفناک صورتحال سے عالم اسلام کی نجات صرف راہ کربلا اختیار کرنے میں مضمر ہے ۔
حالات کتنے ہی ناسازگار کیوں نہ ہو جائیں حسین نے ایک ایسے انقلاب کی بنیاد رکھ دی ہے جو کبھی حق پرستوں کے حوصلے پست نہیں ہونے دیتاکربلا کے دشت میں بلند ہونے والاحسینی استغاثہ آج بھی دنیا میں گونج رہا ہے ۔نبیوں کی محنت بچانے والا حسین ؑ کسی انسان کی مدد کا محتاج نہ تھا بلکہ اس استغاثہ کا مقصد ہر عہد میں انسانیت کو جھنجھوڑنا تھا کہ جب بھی کہیں ظلم وجبرحق والوں سے بیعت کا طلب گار ہوتو صدائے حسین پر لبیک کہتے ہوئے علم انکار بلند کردو۔حسین ؑ کا پیغام بیمار قوموں کیلئے نسخہ اکسیر ہے مظلوموں کی ڈھارس ہے ظالموں کیلئے پیغام اجل ہے اسی لئے کشمیر ہو یا فلسطین ہر مظلوم حسین کا نام لے کر ہی موت سے ٹکرانے کا حوصلہ پاتا ہے اور یہ وہ جذبہ ہے جسے نہ تو اسرائیلی محاصرے و بمباری دبا سکتے ہیں نہ بھارتی پیلٹ گن و سنگینیں ختم کر سکتی ہیں ۔