شہادت امام حسین ؓ

ہر سال محرم میں کروڑوں مسلمان شیعہ بھی اور سنی بھی ٗ امام حسین ؓ کی شہادت پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ ان غمگساروں میں سے بہت ہی کم لوگ اس مقصد کی طرف توجہ کرتے ہیں جس کیلئے امام نے نہ صرف اپنی جان عزیز قربان کی بلکہ اپنے کنبے کے بچوں تک کو کٹوا دیا ۔ کسی شخص کی مظلومانہ شہادت پر اسکے اہل خاندان کا اور اس خاندان سے محبت و عقیدت یا ہمدردی رکھنے والوں کاا ظہار غم کرنا تو ایک فطری بات ہے ٗ ایسا رنج و غم دنیا کے ہر خاندان اور اس سے تعلق رکھنے والوں کی طرف سے ظاہر ہوتا ہے ۔ اسکی کوئی اخلاقی قدر و قیمت اس سے زیادہ نہیں کہ اس شخص کی ذات کے ساتھ اسکے رشتہ داروں کی اور خاندان کے ہمدردوں کی محبت کا ایک فطری نتیجہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ امام حسین ؓ کی وہ کیا خصوصیت ہے جس کی وجہ سے صدیاںگزر جانے کے بعد بھی ہر سال ان کا غم تازہ ہوتا رہے؟اگر یہ شہادت کسی مقصد عظیم کیلئے نہ تھی تو محض ذاتی محبت و تعلق کی بنا پر صدیوں اس کا غم جاری رہنے کے کوئی معنی نہیں ہیں اور خود امام ؓ کی اپنی نگاہ میں اس محض ذاتی و شخصی محبت کی کیا قدر و قیمت ہو سکتی ہے ؟ انہیں اگر اپنی ذات اس مقصد سے زیادہ عزیز ہوتی تو وہ اسے قربان ہی کیوں کرتے ؟انکی یہ قربانی تو خود اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس مقصد کو جان سے بڑھ کر عزیز رکھتے تھے ٗ لہٰذا اگر ہم اس مقصد کیلئے کچھ نہ کریں بلکہ اس کیخلاف کام کرتے رہیں تو محض ان کی ذات کیلئے یہ گریہ و زاری کر کے اور انکے قاتلوں پر لعن طعن کر کے قیامت کے روز نہ تو ہم امام ہی سے کسی داد کی امید رکھ سکتے ہیں اور نہ یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ ان کا خدا اس کی کوئی قدر کریگا ۔
اب دیکھنا چاہیے کہ وہ مقصد کیا تھا ؟ کیا امام تخت و تاج کیلئے اپنے کسی ذاتی استحقاق کا دعویٰ رکھتے تھے اور اس کیلئے انہوں نے سر دھڑ کی بازی لگائی ؟ کوئی شخص بھی جو امام حسین ؓ کے گھرانے کی بلند اخلاقی سیرت کو جانتا ہے ٗ یہ بدگمانی نہیں کر سکتا کہ یہ لوگ اپنی ذات کیلئے اقتدار حاصل کرنے کی خاطر مسلمانوں میں خون ریزی کر سکتے تھے ۔ اگر تھوڑی دیر کیلئے ان لوگوں کا نظریہ ہی صحیح مان لیا جائے جن کی رائے میں یہ خاندان حکومت پر اپنے ذاتی استحقاق کا دعویٰ رکھتا تھا ٗ تب بھی حضرت ابو بکر ؓ سے لے کر امیر معاویہ ؓ تک پچاس برس کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ حکومت حاصل کرنے کیلئے لڑنا اور کشت و خون کرنا ہر گز ان کا مسلک نہ تھا۔ اس لیے لامحالہ یہ ماننا ہی پڑیگا کہ امام عالی مقام کی نگاہیں اس وقت مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست کی روح اور اسکے مزاج اور اسکے نظام میں کسی بڑے تغیر کے آثار دیکھ رہی تھیں جسے روکنے کی جدوجہد کرنا انکے نزدیک ضروری تھا ٗ حتیٰ کہ اس راہ میں لڑنے کی نوبت بھی آ جائے تو نہ صرف جائز بلکہ فرض سمجھتے تھے ۔
ریاست کے مزاج ٗ مقصد اور دستور کی تبدیلی :
وہ تغیر کیا تھا ؟ ظاہر ہے کہ لوگوں نے اپنا دین نہیں بدل دیا تھا ۔ حکمرانوں سمیت سب لوگ خدا اور رسول ؐ اور قرآن کو اسی طرح مان رہے تھے جس طرح پہلے مانتے تھے ۔ مملکت کا قانون بھی نہیں بدلا تھا ۔ عدالتوں میں قرآن و سنت ہی کیمطابق تمام معاملات کے فیصلے بنی امیہ کی حکومت میں بھی ہو رہے تھے جس طرح انکے برسراقتدار آنے سے پہلے ہوا کرتے تھے ۔ بلکہ قانون میں تغیر تو انیسویں صدی عیسوی سے پہلے دنیا کی مسلم حکومتوں میں سے کسی کے دور میں بھی نہیں ہوا ۔ بعض لوگ یزید کے شخصی کردار کو بہت نمایاں کر کے پیش کرتے ہیں جس سے یہ عام غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے کہ وہ تغیر جسے روکنے کیلئے امام کھڑے ہوئے تھے ٗ بس یہ تھاکہ ایک برا آدمی برسراقتدار آ گیا تھا ۔ لیکن یزید کی سیرت و شخصیت کا جو برے سے برا تصور پیش کرنا ممکن ہے اسے جوں کا توں مان لینے کے بعد بھی یہ بات قابل تسلیم نہیں ہے کہ اگر نظام صحیح بنیادوں پر قائم ہو تو محض ایک برے آدمی کا برسراقتدار آ جانا کوئی ایسی بڑی بات ہو سکتی ہے جس پر امام حسین ؓ جیسا دانا و بزرگ اور علم شریعت میں گہری نظر رکھنے والا شخص بے صبر ہو جائے اس لیے یہ شخصی معاملہ بھی وہ اصل تغیر نہیں ہے جس نے امام کو بے چین کیا تھا ۔ تاریخ کے غائر مطالعہ سے جو چیز واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ یزید کی ولی عہدی اور پھر اس کی تخت نشینی سے دراصل جس خرابی کی ابتدا ہو رہی تھی وہ اسلامی ریاست کے دستور اور اسکے مزاج اور اسکے مقصد کی تبدیلی تھی ۔
نقطہ انحراف :
اس چیز کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کیلئے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ رسول اکرم ﷺاور خلفائے راشدین ؓ کی سربراہی میں ریاست کا جو نظام چالیس سال تک چلتا رہا تھا اس کے دستور کی بنیادی خصوصیات کیا تھیں اور یزید کی ولی عہدی سے مسلمانوں میں جس دوسرے نظام ریاست کا آغاز ہوا اسکے اند ر کیا خصوصیات دولت بنی امیہ و بنی عباس اور بعد کی بادشاہیوں میں ظاہر ہوئیں ۔ اسی تقابل سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ یہ گاڑی پہلے کس لائن پر چل رہی تھی اور اس نقطہ انحراف پر پہنچ کر وہ آگے کس لائن پر چل پڑی اور اسی تقابل سے ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ جس شخص نے رسول اکرم ﷺاور سیدہ فاطمہ ؓ اور حضرت علی ؓ کی آغوش میں تربیت پائی تھی اور جس نے صحابہ ؓ کی بہترین سوسائٹی میں بچپن سے بڑھاپے تک کی منزلیں طے کی تھیں وہ کیوں اس نقطہ انحراف کے سامنے آتے ہی گاڑی کو نئی لائن پر جانے سے روکنے کیلئے کھڑا ہوگیا اور کیوں اس نے اس بات کی بھی پرواہ نہ کی کہ اس زور دار گاڑی کا رخ موڑنے کیلئے اسکے آگے کھڑے ہو جانے کا کیا نتیجہ ہو سکتاہے ۔
امام حسین ؓکا مومنانہ کردار : کوئی شخص اس تاریخی حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ یزید کی ولی عہدی ان تغیرات کا نقطہ آغاز تھی اور اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ اس نقطے سے چل کر تھوڑی مدت کے اندر ہی بادشاہی نظام میں وہ سب خرابیاں نمایاں ہو گئیں جو اوپر بیان کی گئی ہیں ۔ جس وقت یہ انقلابی قدم اٹھایا گیا تھا اس وقت یہ خرابیاں اگرچہ بتمام و کمال سامنے نہ آئی تھیں مگر ہر صاحب بصیرت آدمی جان سکتاتھاکہ اس اقدام کے لازمی نتائج یہی کچھ ہیں اور اس سے ان اصلاحات پر پانی پھر جانیوالا ہے جو اسلام نے سیاست و ریاست کے نظام میں کی ہیں ۔ اسی لیے امام حسین ؓ اس پر صبر نہ کر سکے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ جو بدتر سے بدتر نتائج بھی انہیں ایک مضبوط جمی جمائی حکومت کے خلاف اٹھنے میں بھگتنے پڑیں ان کاخطرہ مول لیکر بھی انہیں اس انقلاب کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اس کوشش کا جوانجام ہوا وہ سب کے سامنے ہے ٗ مگر امام ؓ نے اس عظیم خطرے میں کود کر اور مردانہ وار اسکے نتائج کو انگیز کر کے جو بات ثابت کی وہ یہ تھی کہ اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات امت مسلمہ کا وہ بیش قیمت سرمایہ ہیں جسے بچانے کیلئے ایک مومن اپنا سر بھی دے دے اور اپنے بال بچوں کو بھی کٹوا بیٹھے تو اس مقصد کے مقابلے میں یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے اور ان خصوصیات کے مقابلے میں وہ دوسرے تغیرات جنہیں اوپر بیان کیا گیا ہے دین اور ملت کیلئے وہ آفت عظمیٰ ہیں جسے روکنے کیلئے ایک مومن کو اگر اپنا سب کچھ قربان کر دینا پڑے تو اس میں دریغ نہ کرنا چاہیے ۔ کسی کا جی چاہے تو اسے حقارت کے ساتھ ایک سیاسی کام کہہ لے مگر حسین ؓ ابن علی ؓ کی نگاہ میں تو یہ سراسر ایک دینی کام تھا ٗ اسی لیے انہوں نے اس کام میں جان دینے کوشہادت سمجھ کر جان دی ۔

مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی

ای پیپر دی نیشن