سینٹ میں مسلم لیگ (ن) کے قائد ایوان اور مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین راجہ ظفرالحق کا شمار سینئر مسلم لیگی رہنمائوں میں ہوتا ہے۔ 12 اکتوبر کو ان کی اسلام آباد واپسی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں بی بی سی ہیڈ کوارٹر میں بیٹھا افغانستان ایشو پر بات کر رہا تھا کہ مجھے بتایا گیا کہ پاکستان میں فوج وزیراعظم ہائوس میں داخل ہو رہی ہے میں نے وہیں اپنا پہلا انٹرویو دیا جس میں کہا کہ یہ بہت افسوسناک ہے اور اس اقدام سے آئین اور اسمبلیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ اس نے سوال کیا کہ انٹرویو کے بعد آپ یہاں لندن ہی میں رہو گے کہ واپس جائو گے میں نے جواب دیا کہ فوراً واپس جائوں گا۔ اگلے دن ہیتھرو سے لاہور پہنچا تو مجھے حراست میں لے لیا گیا وہاں سے راولپنڈی لے آئے اور نظر بند کر دیا۔ ایک ہفتہ کے بعد فوجی آئے اور کہا کہ ہم جا رہے ہیں۔ ہم نے آپ کا دفتر چیک کیا ہے۔ آپ کا نہ کوئی کاروبار ہے، نہ کوئی بنک قرضہ اور نہ ہی کوئی پلاٹ۔ مجھے جب مسلم لیگ (ن) کا چیئرمین بنایا گیا تو میں نے کوشش کی کہ پارٹی کے بندوں کو حوصلہ دیا جائے۔ میں نے اسلام آباد میں اجلاس بلایا جو چودھری شجاعت کے گھر ہوا۔ چودھری شجاعت نے دریافت کیا کہ پارٹی کس طرح چلائو گے۔ میں نے کہا کہ رابطہ کمیٹی بنا لیتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ آپ کنویئر ہو جائو۔ میں نے کہا کہ پارٹی میاں نوازشریف کی ہے ہم نے سنبھالے رکھنا ہے اور جب وہ واپس آئیں گے ان کے حوالے کر دیں گے۔ جب 3 ستمبر کو احسن اقبال اور 6 ستمبر کو چودھری شجاعت کی رہائش گاہوں پر پارٹی کے الگ الگ اجلاس بلائے تو مجھے تشویش ہوئی کہ پارٹی تقسیم ہوجائے گی۔ میں نے میاں شریف سے کہا کہ ایسا نہ کریں، پارٹی تقسیم ہو جانے سے مارشل لاء کو تقویت ملے گی۔ میاں شریف نے اتفاق کیا اور پھر میں کیپٹن صفدر کو لے کر چودھری شجاعت کے گھر گیا ان سے کہا کہ آپ میٹنگ نہ کریں احسن اقبال بھی نہیں کرے گا۔ مجھے رابطہ عالم اسلامی کی میٹنگ میں مصر جانا تھا وہاں چلا گیا اور جاتے ہوئے سرانجام خاں کی ڈیوٹی لگا دی لیکن وہ لاہور پہنچے تو سردار ذوالفقار کھوسہ کی پریس کانفرنس ہو رہی تھی۔کہ ہم چودھری شجاعت کی طرف نہیں جائیں گے اور نہ ہی انہیں اپنی طرف بلائیں گے۔ اس طرح پارٹی تقسیم ہو گئی لیکن بعد میں بھی اکٹھے ہونے کی کوشش ہوتی رہی لیکن مارشل لاء اتھارٹی نے اکٹھا نہ ہونے دیا۔ نوازشریف نے اپنے کیس کا تمام اختیار اور پیسے چودھری شجاعت کو دئیے ہوئے تھے۔ پارٹی میں اختلاف کی باتیں نوازشریف تک پہنچیں تو انہوں نے پیغام بھجوا دیا کہ راجہ ظفرالحق، سرتاج عزیز، چودھری شجاعت حسین چاروں مجھے ملنے جیل آئیں۔ جب ہم جیل گئے تو جیل والوں نے کہاکہ آپ چاروں میں سے صرف ایک مل سکتا ہے ہم نے کہا کہ ہم چاروں کو بلایا گیا ہے مگر وہ نہ مانے پھر ہم نے آپس میں طے کیا کہ نوازشریف سے پوچھ لیتے ہیںکہ کون ایک آئے۔ سپرنٹنڈنٹ کے ذریعے نوازشریف کو پیغام بھیجا تو انہوں نے کہا ’’راجہ ظفرالحق کو بھیج دو،، ہماری ملاقات سپرنٹنڈنٹ جیل کے کمرے میں ہوئی لیکن کمرے میں ایک انٹیلی جنس افسر بیٹھا ہوا تھا۔ اسے کہا کہ ہم نے بات کرنی ہے آپ چلے جائیں مگر وہ نہ مانا اور پھر ہم نے کاغذ پر لکھ کر ایک دوسرے تک اپنی بات پہنچائی۔ اس طرح آدھا گھنٹہ میٹنگ ہوئی۔ طے یہ پایا کہ جدوجہد جاری رکھیں گے۔ چودھری شجاعت وغیرہ نے دباو میں آ کر بعد میں الگ راستہ اختیار کرلیا۔ مسلم لیگ ہائوس اسلام آباد پر قبضہ ہو گیا۔ مسلم لیگ کے کرائے والے آفس میں ہم نے ورکنگ کمیٹی کا اجلاس کیا اور اس میں فیصلہ کر کے چودھری شجاعت، پرویزالٰہی، اعجاز الحق، شیخ رشید کو پارٹی سے فارغ کر دیا اور وہ پرویز مشرف کے ساتھ چلے گئے۔ ہم نے راجہ صاحب سے دریافت کیا کہ موجودہ حالات کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟ راجہ ظفرالحق نے کہا کہ اس وقت جو چیلنجز ہیں وہ نوازشریف کے نہیں بلکہ پاکستان کے ہیں۔ بھارتی حکومت جو کچھ کر رہی ہے وہ ناقابل برداشت ہے۔