حسرت موہانی کا کیا خوب شعر ہے کہ
ہے انتہائے یاس بھی اک ابتدائے شوق
پھر آ گئے وہیں پہ چلے تھے جہاں سے ہم
12اکتوبر 1999ءہماری تاریخ کا وہ دن ہے جسے بھلایا نہ جا سکے گا، اس دن جنرل پرویز مشرف نے منتخب جمہوری کی بساط لپیٹ کر اقتدار پر قبضہ جمالیا، پاکستان کی عمر کا بیشتر حصہ مارشل لاءکی نذر رہا اور ان میں سے تین مارشل لاءتو ایسے تھے جو کم وبیش 10، 10 سال تک رہے، صدر ایوب خان اور مشرف کو عوامی دباﺅ کی وجہ سے رخصت ہونا پڑا جبکہ ضیاالحق کا طیارہ حادثہ کی نذر ہو گیا، تینوں مارشل لاﺅں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ مارشل لاءلگنے کے بعد عوام میں مٹھائیاں بھی تقسیم ہوئیں اور عوام کے ایک حصے نے انہیں ”ویلکم “ بھی کیا، اب سوال یہ ہے کہ یہ مارشل لاءلگتے کیوں رہے ہیں، ایسے حالات کیوں پیدا کردیے جاتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو ”آخری“ اقدام تک جانا پڑا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی آمریت آئی اس کے پیچھے زیادہ ترسیاسی قائدین کی نااہلیاں ہی کارفرما تھیں، اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہمارے جمہوری حکمرانوں پر بہت سے کرپشن کے الزامات ہیں ۔بہت سے سیاستدان این آر اوکے تحت صاف ستھرے ہو ئے اورآج تک کسی بڑے لیڈر کو اس حوالے سے سزا نہیں ہوئی .... سونے پہ سہاگہ یہ کہ ان کی تجوریاں بھرتی چلی گئیں اورآج یہ سیاستدان ملک کے دوسرے اور تیسرے امیر ترین خاندان بن چکے ہیں۔
آج حالات یہ ہیں کہ ملک پر ایک بار پھر 12اکتوبر جیسے واقعات کے بادل سر پر منڈلا رہے ہیں، سیاسی جماعتیں کھیل کھیل رہی ہیں، ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔ سندھ اور بلوچستان میں احساس محرومی شدت اختیار کرتا جارہا ہے، بدنظمی اور بدامنی اپنی انتہا پر ہے، لوٹ مار اور کرپشن میں سول قیادت بدنامی کی حد تک ملوث ہو چکی ہے ، ریاست موجود ہے اور اس کے چاروں ستون بھی موجود ہیں مگر گڈگورننس کہیں نظر نہیں آتی ، عوام سڑکوں پر نکلتے ہیں تو لوڈشیڈنگ عارضی طور پر ختم ہوجاتی ہے اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ حکمران عوام کے سڑکوں پر نکلنے کا انتظارکررہے ہیں ۔
اس لئے یہ کہنے میں مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ فوجی حکومتوں کے قیام کی ذمے داریوں سے ہمارے سیاستدان بری الذمہ نہیں ہو سکتے کیونکہ منتخب حکومتوں کی کوتاہیوں کے باعث ہی فوجی مداخلت ہوئی اور ملک و قوم کے مفاد کے نام پر ہی ہمیشہ فوجی حکومتیں قائم ہوئیں۔ پی پی کے بانی اور وزیر اعظم بھٹو نے 1977ءکی تحریک میں اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے تین شہروں میں مارشل لاءلگایا جو بعد میں پورے ملک میں لگ گیا جس کا عوام نے ہی نہیں سیاستدانوں نے بھی زبردست خیرمقدم کیا تھا مگر پی پی اقتدار چھن جانے پر ناراض تھی۔2008ءکے عام انتخابات میں پی پی اقتدار میں آئی تھی اور آصف علی زرداری نے بھی صدارت حاصل کر لی تھی۔ اس وقت آرمی چیف پی پی کے حامی تھے، جنہیں بعد میں 3 سال کی توسیع ملی تھی اور پی پی نے پہلی بار اپنے اقتدار کی پانچ سالہ مدت پوری کی تھی۔ ان پانچ برسوں میں ملک کو ذاتی جاگیر سمجھ کر بادشاہوں کی طرح چلایا گیا اور نیچے سے اوپر تک کرپشن، من مانیوں، لاقانونیت، اقربا پروری کا جو بازار گرم ہوا وہ دنیا نے دیکھا اور عوام نے بھگتا۔ سقوط ڈھاکا کے بعد جتنی بھی نام نہاد جمہوری حکومتیں آئیں وہ اپنی حرکتوں کے باعث 1999ءتک کوئی اپنی مدت پوری نہ کر سکیں، جس پر اب وزیر اعظم نواز شریف نے بھی شکوہ کیا ہے کہ عوام سیاسی پارٹیوں کی حکومتیں منتخب کرتے ہیں مگر توڑ کوئی اور (یعنی فوجی جنرل) دیتا ہے۔ فوجی جنرلوں کو مورد الزام ٹھہرانے والے سیاسی حکومتوں کے رہنماو¿ں نے اگر کبھی یہ سوچنے کی زحمت کر لی ہوتی کہ فوجی مداخلت کا موقع جنرلوں کو کون دیتا ہے تو یہ نوبت کبھی نہ آتی۔ بیرون ملک گئے آرمی چیف کو ایوان وزیر اعظم بلا کر بھی جنرل کرامت کی طرح استعفیٰ لیا جاسکتا تھا تو انہیں کیوں ہٹا کر اپنا پسندیدہ جنرل لایا گیا تھا، جس کے نتیجے میں خود وزیر اعظم جلاوطن ہوئے اور ملک کو مارشل لاءکے بغیر ہی طویل فوجی حکومت برداشت کرنا پڑی۔
عوام کی منتخب کہلانے والی جمہوری حکومتیں فوجی جنرلوں نے ہی نہیں بلکہ سویلین صدور نے بھی برطرف کی تھیں اور محترمہ کے منہ بولے بھائی فاروق لغاری بھی اپنی ہی پارٹی کی حکومت کو کیوں توڑنے پر مجبور ہوگئے تھے، جس کی وجوہات ضرور تھیں اور خود پی پی حکومت نے اپنے ہی صدر کو حکومت کی برطرفی کا موقع دیا تھا۔ ہر سیاسی حکومت کی برطرفی میں غلطیاں خود ان کی اپنی تھیں مگر کسی نے بھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کی اور دوسروں کو ہی مورد الزام ٹھہرایا۔ ہمارے سیاستدانوں نے کوئی اصول بنائے ہوتے اور اصولوں پر اقتدار چھوڑا ہوتا‘ اپنے اپنے دور میں ملک میں حقیقی جمہوریت قائم کی ہوتی تو آج ملک میں ایک بار پھر 12اکتوبر جیسے حالات پیدا نہ ہوتے۔ مجھے یاد ہے کہ 1999ءمیں نواز شریف کو لوگ سمجھاتے رہے کہ وہ سیاسی مخالفت میں اتنا آگے نہ جائیں کیونکہ انہیں اسکے پیچھے بوٹوں کی دھمک سنائی دیتی ہے مگر نواز شریف سمجھ نہیں سکے اور آج 12اکتوبر 1999ءکو تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دے رہے ہیں جب مشرف نے انہیں اقتدار سے علیحدہ کرکے جلا وطن کر دیا تھا ۔ لہٰذا موجودہ حکومت کو یہ سمجھنا چاہئے کہ سیاسی رسہ کشی، غلط فیصلوں اور یکجہتی کے فقدان کی وجہ سے ہم پہلے ہی بہت نقصان کر چکے ہیں، اب مزید کسی ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تو نتائج پہلے سے زیادہ خطرناک ہوسکتے ہیں۔