ملک میں نہ تو جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کی کوئی کمی ہے اور نہ ہی ان سیاسی گماشتوں کی جو ایک مخصوص عرصہ کے بعد یہ ورد شروع کردیتے ہیں کہ اللہ کرے کوئی فوجی آمر جمہوریت پر شب خون مارے تاکہ انہیں کنگز پارٹی میں شمولیت کا نادر موقع میسر آسکے۔ وہ چاہے جنرل ایوب خان کا بی ڈی سسٹم (بنیادی جمہوریت کا نظام ) ہو جنرل ضیاالحق کی مجلس شوریٰ ہو یا پھر جنرل مشرف کا نظام احتساب کسی نہ کسی بہانے منتخب نمائندوں اور ان کے ووٹ کے ذریعے قائم جمہوری حکومت کو چلتا کردیا جاتا ہے اور یوں اس تصور کو تقویت ملتی ہے کہ یہاں انتقال اقتدار کے بجائے صرف شراکت اقتدار کی ہی اجازت دی جاتی ہے۔ اگر پاکستان کی 70 سالہ سیاسی تاریخ کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے اس کو پرکھنے کیلئے ذرا ماضی کے جھروکوں میں جھانک لیتے ہیں۔ پاکستان میں اب تک تین مرتبہ فوجی انقلاب کے ذریعے سیاسی حکومتوں کو ان کی مدت پوری ہونے سے قبل ہی گھر بھیج دیا گیا۔ پہلی مرتبہ 1958ءمیں صدر میجر جنرل سکندر مرزا نے قانون ساز اسمبلی اور وزیراعظم فیروز خان نون کی حکومت دونوں کو ہی چلتا کیا اور مسلح افواج کے کمانڈر انچیف جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا۔ اس کے صرف 13 دنوں بعد ایوب خان نے سکندر مرزا کو صدر کے عہدے سے معزول کردیا اور خود مسند صدارت بھی سنبھال لیا۔ صدر ایوب بشمول یحییٰ خان 13 سال تک اقتدار پر قابض رہے۔ اس کے بعد 1970ءکے انتخابات میں مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلزپارٹی نے اکثریت حاصل کی پھر وہ تاریخی غلطی کی گئی کہ اقتدار عوامی لیگ کے سپرد کرنے کے بجائے مختلف حیلوں بہانوں سے اس کی منتقلی میں تاخیر کی گئی جس کے نتیجے میں ملک دولخت ہوا۔ بھٹو کا سب سے بڑا احسان یہ تھا کہ ملک کو پہلی بار ایک متفقہ آئین ملا جبکہ 26 سال تک ملک کو بغیر آئین یا عبوری آئین کے تحت چلایا جاتا رہا۔ دوسرا بڑا کارنامہ بھٹو کا پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنا تھا اور ان کا یہی جرم شاید انہیں تختہ دار تک لے گیا کیونکہ امریکہ کسی صورت پاکستان کو ایٹمی طاقت بنتے دیکھنا گوارا نہیں کرسکتا تھا لہٰذا بہت سے لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ امریکیوں نے جنرل ضیاالحق کے ذریعے 4 جولائی 1977ءکو بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے کا کارنامہ سرانجام دلوایا۔ جنرل ضیاءکے حکم پر بھٹو‘ اس کے وزیروں‘ پی پی پی اور پی این اے کے رہنماﺅں کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ جنرل ضیاءنے اس رات اپنی ”نشری“ تقریر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوںکو توڑ دیا اور آئین کو معطل کردیا۔ جنرل ضیاءکا اقتدار پر قبضہ کرنا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں دوسری فوجی مداخلت تھی۔ جنرل ضیاء11 سال تک ملک پر مسلط رہے۔ اس دوران ان کے ایک ساتھی جنرل غلام جیلانی نے شریف خاندان کے نوجوان نوازشریف کو صوبائی وزیر بناکر آنے والے وقتوں میں سیاسی منظرنامے پر ایک بھرپور کردار ادا کرنے کی راہ ہموار کی۔ 1985ءمیں وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے اور 1990ءمیں ایک قدامت پسند اتحاد آئی جے آئی کے رہنماءکے طور پر انہوں نے محترمہ بےنظیر بھٹو کو انتخابات میں شکست دی اور ملک کے 12 ویں وزیراعظم بن گئے۔ ان کا یہ اقتدار بمشکل تین سال قائم رہنے کے بعد اس وقت اختتام پذیر ہوا جب صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے یہ الزام عائد کیا کہ وہ اپنے مخالفین کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں اور ان کی حکومت انتہائی کرپٹ ہے۔ غلام اسحاق خان نے آئین میں ان کو دیئے اختیار (آرٹیکل 58/2B) کو استعمال کرتے ہوئے نوازشریف اور ان کی حکومت کو چلتا کیا اور بلخ شیر مزاری کو عبوری وزیراعظم بنا دیا۔ غلام اسحاق خان کی طرف سے یہ الزام بھی عائد کیا گیا تھا کہ نوازشریف صدر کے اختیارات کم کرنے اور انہیں گھر بھیجنے کی سازش کررہے ہیں۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ آئندہ انتخابات آئین کے مطابق 14 جولائی 1993ءکو منعقد ہوں گے۔ صدر اسحاق خان کی طرف سے یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ نوازشریف کے دست راست چودھری نثار اور انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ بریگیڈیئر امتیاز پر اس وقت کے آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ کو زہر دینے کا شبہ ہے اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں ایک بار پھر بےنظیر بھٹو 1993ءمیں پاکستان کی وزیراعظم بن گئیں چونکہ ان کی جماعت نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرلی تھی۔ دوسری مرتبہ بھی ان کی حکومت کو اپنے ہی منتخب کئے صدر فاروق لغاری نے 1996ءمیں چلتا کیا۔ ان کے اقتدار سے محروم ہونے کی وجوہات میں ان کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کا قتل‘ 1995ءمیں ایک ناکام فوجی انقلاب کی کوششیں اور ان کے شوہر آصف علی زرداری کے کرپشن میں ملوث ہونے کے الزامات شامل ہیں۔ دوسری مرتبہ نوازشریف 17 فروری 1997ءکو ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ نوازشریف نے ماضی سے سبق سیکھا ہوگا اور وہ اپنی وزارت عظمیٰ کے اس دور میں بہتر فیصلے کرپائیں گے مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ اس مرتبہ ان کی اعلیٰ عدلیہ اور فوج سے پھر ٹھن گئی۔ نوازشریف نے 1998ءمیں اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل کرامت سے زبردستی استعفیٰ لیا اور ان کی جگہ جنرل مشرف کو فوج کا سربراہ مقرر کردیا مگر کارگل کی جنگ نے دونوں کے تعلقات کو بری طرح متاثر کیا اور یہ تناﺅ نہ صرف واضح طور پر دکھائی دینے لگا بلکہ دیر تک قائم بھی رہا اور پھر نوازشریف ایک ایسی غلطی کے مرتکب ہوئے جس کے باعث انہیں ایک بار پھر نہ صرف اقتدا رسے الگ ہونا پڑا بلکہ طیارہ اغواءکیس میں اٹک قلعہ میں قید تنہائی بھی کاٹنی پڑی۔ یہ غلطی وہ تھی جب انہوں نے جنرل مشرف کے دورہ سری لنکا کے دوران اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ضیا الدین بٹ کو چیف آف آرمی سٹاف مقرر کرنے کی کوشش کی۔ اس سے پہلے کہ 1999ءمیں برپا ہونے والے فوجی انقلاب کی تفصیلات درج کی جائیں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ نوازشریف اپنے وزیروں اور مشیروں کے انتخاب میں ہمیشہ غلطی کے مرتکب ہوتے رہے ہیں اور انکے اقتدار سے ہر بار محروم ہونے کی یہی سب سے بڑی وجہ بنی۔ اب ان مشیروں کی عقل کا ماتم ہی کیا جا سکتا ہے جنہوں نے نواز شریف کو فوجی کمانڈروں کو اعتماد میں لئے بغیر آرمی چیف جنرل مشرف کو اس وقت سبکدوش کرنے کا مشورہ دیا جب وہ دورہ پر سری لنکا گئے ہوئے تھے۔ عقل کا ماتم تو جنرل ضیاالدین بٹ کا بھی کرنا چاہئے جنہیں ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی ہوتے ہوئے بھی یہ ادراک نہیں تھا کہ انکی غیر روایتی انداز میں یہ ترقی جی ایچ کیو میں کسی ایک جنرل کے لئے بھی قابل قبول نہ ہو گی۔ درحقیقت واقعات اس برق رفتاری سے رونما ہو رہے تھے کہ پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ حکومتی رٹ کی صورتحال کیا ہے جبکہ دوسری طرف پاک آرمی کی قیادت یکجا تھی اور زمینی حقائق مکمل طور پر ان کی دسترس اور گرفت میں تھے۔ نواز حکومت تذبذب کا شکار تھی۔ جنرل مشرف کو جب جنرل ضیا الدین کے آرمی چیف بنائے جانے کی خبر ملی تو انہوں نے اپنے فوجی کمانڈروں جنرل عزیز اور جنرل محمود سے رابطہ کیا جنہوں نے اپنی وفاداری اور حالات کے مکمل طور پر انکے قابو میں ہونے کی یقین دہانی کرائی۔ اس کے بعد جنرل مشرف نے پی آئی اے کے A-300 طیارے میں واپسی کا سفر شروع کیا۔ ادھر نواز شریف جلد بازی میں فیصلے کر رہے تھے انہوں نے سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل رانا مقبول کو حکم دیا کہ وہ آرمی چیف جنرل مشرف کو واپسی پر گرفتار کر لیں۔ دوسری طرف انہوں نے پی آئی اے کے چیئر مین خاقان عباسی کو حکم دیا کہ وہ کراچی کے ہوائی اڈے جناح ٹرمینل کو مکمل طور پر سیل کر دیں تا کہ جنرل مشرف کا طیارہ نہ اتر سکے اور جواز یہ پیش کیا کہ مشرف فوج کے ذریعے ان کی حکومت کا تختہ الٹانا چاہتے ہیں۔ جب مشرف کا جہاز پاکستان کی فضاﺅں میں داخل ہوا تو اسے ہدایت دی گئی کہ وہ نواب شاہ ائر پورٹ پر لینڈ کرے۔ ایک روایت یہ ہے کہ جنرل مشرف نے نواب شاہ ایئرپورٹ سے ہی اپنے ہمنوا فوجی جرنیلوں سے رابطہ کر کے انہیں نواز حکومت کو معزول کرنے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کے احکامات جاری کئے اور یوں مشرف 12 اکتوبر کو ملک کے چیف ایگزیکٹو بن گئے اور ملک میں براہ راست مارشل لاءنافذ کرنے کی بجائے 14 اکتوبر کو ایمرجنسی نافذ کر دی اور عبوری آئینی حکم کے ذریعے ملک کے آئین کو معطل کر دیا۔ یہ سارا عمل صرف 17 گھنٹوں میں مکمل ہوا۔ ضیا الدین بٹ، نواز شریف، شہباز شریف، کابینہ کے ارکان کو گرفتار کر کے گھروں میں نظر بند کر دیا گیا۔ عدلیہ نے اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے ایک بار پھر فوجی بغاوت کو آئینی تحفظ مہیا کیا۔ سپریم کورٹ نے نظریہ ضرورت کے تحت فوجی بغاوت کو جائز قرار دے دیا۔ اس کے بعد معزول وزیراعظم نواز شریف پر جج ایڈووکیٹ جنرل کورٹ میں طیارہ اغوا کرنے اور اس میں سوار جنرل مشرف اور دیگر مسافروں کی جانوں سے کھیلنے کے الزام میں مقدمہ چلا جس کی سماعت کے بعد عدالت نے تمام الزامات کو درست قرار دیتے ہوئے نواز شریف کو طیارہ اغوا کرنے کا مجرم گردانتے ہوئے عمر قید کی سزا سنا دی۔ فیصلے کے اعلان کے بعد مسلم لیگ نواز کی صفوں میں ایک طرح سے بھگدڑ مچ گئی جبکہ نواز شریف کے مخالفین نے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ نومبر 1999ءمیں مسلم لیگ کی قیادت نے سپریم کورٹ میں رٹ کے ذریعے فوجی انقلاب اور ایمرجنسی کے نفاذ کو غیر آئینی قرار دینے اور نواز شریف کو رہا کرنے کی التجا کی۔ تب 2001ءمیں جسٹس سعید الزماں صدیقی نے فوجی انقلاب کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ خود مستعفی ہو گئے ان کی جگہ ارشاد حسن قائم مقام چیف جسٹس بن گئے جنہوں نے فوجی انقلاب کو پھر سے جائز قرار دے دیا۔ 10 دسمبر 2000ءمیں جنرل پرویز مشرف نے اچانک نواز شریف کو معافی دیتے ہوئے اپنے کنبے کے دیگر افراد کے ساتھ ایک خصوصی طیارے کے ذریعے جو سعودی عرب کے شاہی خاندان نے ان کےلئے بھیجا تھا جدہ جانے کی اجازت دے دی۔
نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کی جلا وطنی ایک ڈیل کے ذریعے ممکن ہوئی جس کا مرکزی کردار سعودی عرب کے خفیہ ادارے کے سربراہ شہزادہ مقرن تھے۔ اس وقت اس مبینہ ڈیل کی تفصیلات کو دانستہ مخفی رکھا گیا۔ 2001ءمیں جنرل مشرف نے اپنے ایک حکم کے ذریعے صدر رفیق تارڑ کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور یوں خود صدارت کے عہدے پر براجمان ہو گئے۔ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی روشنی میں 30 اپریل 2002ءکو جنرل مشرف نے ایک ریفرنڈم کا انعقاد کرایا جس کا مقصد اپنے اقتدار کو جاری و ساری رکھنا تھا۔ اس متنازعہ ریفرنڈم میں مشرف کو 98% ووٹ لےکر کامیابی حاصل ہوئی جبکہ انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان نے اس ریفرنڈم کو فراڈ قرار دیا۔ ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اس ریفرنڈم میں تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان، جنرل مشرف کے چیف کوآرڈینیٹر تھے اور انہوں نے مشرف کے حق میں مہم بھی چلائی تھی یہ وہ موقع تھا جب مشرف کو اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لئے ایک کنگز پارٹی کی ضرورت در پیش ہوئی اور یوں پاکستان مسلم لیگ (ق) معرض وجود میں آئی جس نے 2004ءمیں جنرل مشرف کو صدارتی انتخاب لڑنے کے لئے نامزد کیا۔ جنرل مشرف کے صدر منتخب ہونے پر ملک کی سیاسی جماعتوں اور عالمی تنظیموں نے کڑی تنقید کی مگر اس وقت کے پنجاب کے وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی نے صوبائی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے یہ تاریخی جملہ ادا کیا تھا کہ اگر ہمیں دس بار بھی مشرف کو وردی میں صدر منتخب کرانا پڑا تو کرائیں گے۔ سپریم کورٹ نے 2009ءمیں نواز شریف کو طیارہ اغوا کرنے کے مقدمے میں بری کر دیا اور اپنے فیصلے میں کہا کہ نہ تو نواز شریف نے کوئی طاقت استعمال کی تھی اور نہ ہی کوئی جعل سازی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ان پر بلا وجہ مقدمہ بنایا گیا ہے۔
نوازشریف کے مخالفین کا یہ خیال ہے کہ فوج اور عدلیہ کے بارے میں وہ ایک خاص مخاصمت رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مسلح افواج کے چار سربراہان کے ساتھ ان کی نہ بن سکی جن میں جنرل آصف نواز جنجوعہ‘ جنرل وحید کاکڑ‘ جنرل جہانگیر کرامت اور جنرل مشرف شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں سے بھی ان کے تعلقات کی نوعیت کو قابل ستائش قرار نہیں دیا جا سکتا اور جو صورت حال اس وقت جاری ہے اس کے نتیجے کے طور پر نوازشریف نااہل قرار پا کر ایوان اقتدار سے باہر بیٹھے ہیں اور یوں مائنس ون فارمولا پر عملدرآمد ہو گیا ہے۔ آئندہ کیا ہونے والا ہے یہ پھر کبھی سہی مگر جو کچھ ہو چکا ہے وہ اس شعر میں نہاں ہے
کچھ تو خزاں ہے باعث بربادی¿ چمن
کچھ باغباں کا ہاتھ بھی اس میں ضرور ہے
٭٭٭٭٭