الطاف احمد خان مجاہد
12 اکتوبر 99ءکا سورج بھی معمول کے ایام کی طرح طلوع ہوا لیکن میاں نواز شریف کا ایک فیصلہ اس دن کو تاریخ کا ایک اہم دن بنا گیا ۔فوج کے سربراہ کو جب وہ پاکستان میں نہیں تھے سبکدوش کر کے نئے آرمی چیف کے تقرر کا اقدام خلاف معمول جس عجلت میں کیا گیا،اس نے فیصلہ ساز قوتوں کو چونگا دیا۔ پھر نواز شریف نے کس طرح ہائی جیکنگ کیس کا سامنا کیا اور سزا بھگتی اور کیسے خاندان سمیت سعودی عرب چلے گئے اور پھر ایک معاہدہ کے بعد واپسی کی راہ کس نے ہموارکی، جناب مجید نظامی مرحوم کی تصنیف ”جب تک میں زندہ ہوں“ جاوید ہاشمی کی ”میں باغی ہوں“ جنرل (ر)شاہد عزیز کی ”یہ خاموشی کہاں تک “ کا مطالعہ کریں تو بہت سے ایسے واقعات کا پتہ چلتا ہے ۔
کراچی ، 12 اکتوبر 99 کے بہت سے واقعات کا عینی شاہد ہے جہاں سری لنکا سے واپسی پر جنرل پرویز مشرف کے طیارے نے اترنا تھا جس کے لئے ائر پورٹ بند کر دیا گیا۔جگہ جگہ اندھیرا اور رکاوٹیں پھرراولپنڈی میں فوج کا ٹیک اوور اور کراچی میں کور کمانڈر جنرل عثمانی کا ایکشن،یہ سب پرویز مشرف کی فاتحانہ لینڈنگ کے اسباب تھے۔ اور بعد کے حالات سب کے سامنے رہے ہیں اور 18 سال کوئی طویل مدت بھی نہیں کہ لوگ بھول جائیں یا فراموش کر دیں آج بھی وہ لوگ حیات ہیں جنہوں نے پرویز مشرف کے ایکشن کو قبول نہ کیا تھا اور چٹان بن کر ڈٹے رہے ۔ ہزاروں ایسے لوگ تھے جنہوں نے ق لیگ بلکہ اس سے قبل ہم خیالوں کی راہ کو اپنا لیا تھا۔ مجھے یاد آتے ہیں مرحوم زاہد رفیق بٹ، طارق خان، راﺅ عبدالشکور، منظور بٹ جیسے جاں نثارجو سینہ سپر رہے لیکن ہم خیال نہ بنے دوسری طرف کراچی سے کشمور تک پھیلے سندھ کے وہ وڈیرے، شہری، صنعتکار، پیشہ ور سیاسی لیڈر اور دو نمبری سیاسی کارکن جنہوں نے بہت کم قیمت پر خود کو بیچا اور ساتھ چھوڑ گئے اور یہ پہلی بار نہ تھا ان کے پرکھوں نے بھی 1936ءکی پہلی سندھ اسمبلی سے لے کر الیکشن 97ءتک ہمیشہ اسی طرح اپنی قیمت وصول کی ۔
سندھ نواز شریف کیلئے اجنبی بن چکا تھا سہمے اور ڈرے ہوئے پولیٹیکل ورکر 58ئ، 69ءاور 77ءکے مارشل دیکھ اور بھگت چکے تھے اس لئے کوئی مو¿ثر تحریک تو کیا چلتی پہلا احتجاج بھی کئی دن بعد مشاہد حسین نے کیا جو آج سینٹر ہیں۔ غوث علی شاہ زیر حراست تھے اور باقی قیادت شش و پنج کا شکار۔ ایک مو¿قف تھا کہ مزاحمت نہ کی جائے تو دوسرا نقطہ نظر تھا کہ اسیر قیادت کی رہائی کیلئے سڑکوں پر نکلا جائے۔ طیارہ کیس کی کراچی میں سماعت کے دوران بہت سے کارکن تھے جو نواز شریف کی تصاویر لیکر کلفٹن میں کورٹ کے راستے پر کھڑے ہو جاتے یقین دلاتے کہ ان کا رشتہ محبت و مو¿دت قیادت سے استوار ہے۔ لیکن لیاقت جتوئی اور مشیر اعلیٰ غوث علی شاہ کی کابینہ کے ارکان کا کچھ پتہ نہیں تھا اکثریت خاموش یا پھر بچ نکلنے اور محفوظ سیاسی اڑان کیلئے دوسری چھتریاں تلاش کر رہی تھی ۔جیسے سندھ میں پی پی کا متبادل ہمیشہ پیر پگارا رہے ہیں نواز شریف کا متبادل بھی تلاش کیا گیا وفاداریاں خریدنے اور بھیجنے کا بازار گرم تھا 2001ءکے بلدیاتی اور 2002ءکے پارلیمانی الیکشن تک ٹھٹھہ کے شیرازی، تھر کے ارباب، گھوٹکی کے مہر، خیرپور کے سید بادشاہ، نوشہرو فیروز کے جتوئی اور بہت سے محترم، مو¿قر اور صاحب حیثیت خانوادے اسلام آباد سے رشتے استوار کر چکے تھے ۔ جس طرح الیکشن 97ءمیں سندھ کے شہروں اور دیہات سے ن لیگ کامیاب ہوئی ،یہ تصویر کا دوسرا رخ تھا کہ کراچی، ٹھٹھہ، دادو، حیدرآباد، بدین، نواب شاہ، نوشہر و فیروز، خیر پور، سکھر، گھوٹکی، جیکب آباد، لاڑکانہ، شکارپور، سانگھڑ میرپور خاص، عمر کوٹ، تھر اضلاع سے ن لیگ نے الیکشن میں واضح کامیابی کے بعدسندھ میں حکومت بنائی اور لیاقت جتوئی اس کے وزیراعلیٰ تھے ۔سابق گورنر حکیم سعید کی شہادت کے بعد سندھ میں یہ تبدیلی بھی آئی غوث علی شاہ مشیر اعلیٰ بنے ۔ اس کے باوجود کہ ن لیگ بر سر اقتدار رہی پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالتے ہی سب وڈیرے حسب سابق راستہ بدل گئے ایسا کچھ غلط بھی نہ تھا کہ یہ سب لوگ تو مسلم لیگ، ری پبلکن، کنونشن لیگ، ضیاءلیگ سمیت پی پی کے جام صادق دور میں بھی اسی طرح وفاداریاں بدلتے رہے تھے۔ غلط تو نواز شریف تھے جنہوں نے انہیں گلے لگایا وزارتیں دیں اور مراعات سے نوازا۔ دور ابتلاءمیں یہ سب ساتھ چھوڑ گئے لیکن صرف سندھ کے وڈیرے ہی کیوں؟ خود نواز شریف بھی تو 74 ملازموں، اہل خانہ اور ملازموں سمیت جدہ جاتے ہوئے غوث علی شاہ کو جیل میں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ جب شاہ صاحب بغرض علاج بیرون ملک گئے اور الیکشن 2008ءکے بعد واپس آئے تو ان کے استقبال کیلئے کراچی ائر پورٹ پر شریف برادران بھی تو موجود نہ تھے۔ طارق خان کو کراچی میں طارق روڈ کے قریب شہید کیا گیا۔ زاہد رفیق بٹ ڈائلاسز کے مرض میں وفات پا گئے تو شریف بھائیوں کو اپنے متوالوں کے گھر جا کر فاتحہ کی توفیق بھی نہ ہوئی۔ الیکشن 2013ءمیں اقتدار ملا تو پرویز مشرف کی اتحادی فنکشنل لیگ یا امتیاز شیخ، جتوئی، ارباب، شیرازی، ماروی میمن، ٹنڈو محمد خان کے مگسی سب نواز شریف کے دائیں بائیں ہیں ۔غوث علی شاہ، روشن بلوچ، حمید کھوسہ کا کچھ پتہ نہیں۔ آج پھر نواز شریف سندھ میں تنہا ہیں ان کے ٹکٹ پر کامیاب عبدالحکیم بلوچ وزیر مملکت کے عہدے اور قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیکر پھر پی پی میں جا چکے ہیں اور ضمنی الیکشن میں کراچی سے ایم این اے چن لئے گئے ہیں۔ایم پی اے حاجی شفیع جاموٹ بھی ن لیگ سے نالاں ہیں انکے بھانجے جان عالم پی پی میں اسی سال شامل ہوئے۔ ان کے بھانجھے جان عالم اسی سال پی پی پی میں شامل ہوئے ہیں،جنہیں پارٹی کی ضلعی صدارت ملنے والی ہے۔ دوسرے ایم پی اے عرفان مروت مستعفی ہو چکے ہیں ۔ہمایوں خان بھی جو تیسرے رکن سندھ اسمبلی تھے نمایاں نہیں۔ ذاتی حیثیت میں الگ انتخابی نشان پر کامیاب شیرازی ،جتوئی، اور ارباب بلا شبہ ساتھ ہیں لیکن کب تک؟ سندھ میں مسلم لیگ کے صدر اسماعیل راہو پی پی جوائن کر چکے ہیں۔ دادو سے ایم پی اے لیاقت جتوئی اب تحریک انصاف کا حصہ ہیں۔ صوبائی سکیرٹری نہال ہاشمی سے قیادت نے استعفیٰ لے لیا تھا سندھ میں مسلم لیگ مضبوط و مستحکم تھی لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ یہ صوبہ اب نواز شریف کے سیاسی ایجنڈے کا حصہ نہیں۔ اس لئے وہ مخلص کارکنوں اور با اثر اتحادیوں کو ناراض کرنے کی بجائے ان کی صلاحیتوں اور طاقت کو اپنے سیاسی استحکام کیلئے استعمال میں لاتے۔بات 12 اکتوبر سے شروع ہوئی تھی 18 برس بعد پھر آج وہی دن ہے کیا اس دوران سیاسی قیادت نے عوامی رابطوںاور جمہوریت کو طاقت ور بنانے کیلئے کوئی سبق سیکھا شاید نہیں۔