اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) سینیٹ فنکشنل کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقوں کے اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ بلوچستان میں زیر زمین پانی کی سطح دن بدن نیچے جا رہی ہے جسکی وجہ سے بہت جلد صوبائی دارلحکومت کوئٹہ سے شفٹ کرنا پڑے گا۔بدھ کو کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد عثمان خان کاکٹر کی زیر صدارت میں پارلیمنٹ لاجز میں منعقد ہوا۔جس میں کمیٹی ارکان کے علاوہ سیکرٹری پلاننگ ڈویژن ، ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ ،جوائنٹ سیکرٹری پاور ڈویژن، سٹیٹ بنک پاکستان ، نیشنل بنک پاکستان کے حکام نے شرکت کی۔ جوائنٹ سیکرٹری پاور ڈویژن نے فنکشنل کمیٹی کو بتایا کہ بلوچستان میں زراعت کےلئے30 ہزار ٹیوب ویل بجلی سے چلتے ہیں جن کا سٹینڈرڈ لوڈ480 میگاواٹ ہے ان کے علاوہ ساڑھے نو ہزار ٹیوب ویل ڈیزل پمپ سے بھی چلائے جاتے ہیں ۔ جہاں پانی بہت نیچے ہیں وہاں ہارس پاور پمپ کام نہیں کرتے ۔ کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ ٹیوب ویل کو سولر پر منتقل کرنے کا پی سی ون 68 ارب روپے کا تقریباً بن چکا ہے ۔ 15 ہزار پمپس 7 سے12ہار س پاورکے ہیں جبکہ باقی 15 سے20 ہارس پاور کے ہونگے ۔ ٹیکنیکل چیزوں کا جائزہ لیا جارہا ہے ایک ہفتے میں تیار ہوجائے گا جس پر چیئرمین کمیٹی و اراکین نے کہا کہ بلوچستان کے کئی اضلاع میں زیر زمین پانی کی سطح ہزار فٹ سے بھی نیچے ہے جس کےلئے کم ازکم 50 ہارس پاور کا پمپ چاہیے ۔ سینیٹر میر کبیر احمد محمد شاہی نے کہا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے وعدہ کیا تھا کہ بلوچستان میں ٹیوب ویل کو سولر سسٹم پر منتقل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت 29 ارب کی اس حوالے سے سبسڈی سالانہ فراہم کر رہی ہے ۔ 32 ہزار ٹیوب ویل سولر سسٹم پر منتقل ہونے سے یہ مسئلہ ہمیشہ کےلئے ختم ہو جائے گا اور عوام اور ملک کا بھی فائدہ ہوگا جس پر فنکشنل کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ 15 دن بعد متعلقہ اداروں اور بلوچستان کسان کمیٹی کے کچھ ممبران کو بلا کر معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے گا۔سیکر ٹری پلاننگ اور چیف پلاننگ کمیشن واٹر ریسورسز بے انکشاف کیا کہ بلوچستان میں زیر زمین پانی کی سطح دن بدن نیچے جا رہی ہے جسکی وجہ سے بہت جلد صوبائی دارلحکومت کوئٹہ سے شفٹ کرنا پڑے گا۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ بلوچستان میں پانی کے مسائل کے حوالے سے تمام متعلقہ اداروں کو بلا کر ایسا لائحہ عمل اختیار کیاجائے گا کہ صوبے کے پانی کی کمی کو دور کرنے میں موثر منصوبہ بندی دی جا سکے