روزانہ کوئی نہ کوئی دلچسپ خبر سامنے آ رہی ہے، ہم پاکستان میں رہتے ہیں تو ایسی خبروں کو بلاشبہ دلچسپی کے طور پر لینا چاہیے۔ یہ چند ذہنوں کی اصطلاح ہے اور ان کے مطابق اگر ہر خبر کو سنجیدگی سے دل پر لیا جائے تو معاملات مزید بگاڑ کا اس انداز میں شکار ہو سکتے ہیں کہ ہر دوسرا شخص دل کے عارضے یا کسی نہ کسی مہلک بیماری میں مبتلا ہو جائے گا۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے پچاس لاکھ گھروں کے حوالے سے حکومتی پلان کی تفصیلات بتاتے ہوئے نیا پاکستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کا اعلان کر دیا۔ عین اسی وقت سینٹ میں چیئرمین سینٹ کے بار بار اصرار اور قائل کرنے کے باوجود وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ ایک دوسرے کے ساتھ تلخ جملوں کے تبادلے میں مصروف تھے، کسی نے پوچھا کہ یہ لوگ ملک کی بہتری کے لئے کام کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے ساتھ لگے رہتے ہیں؟ کیا اس سے بہتری آ سکتی ہے، اس کا جواب گزشتہ ستر سالوں سے کوئی دماغ تلاش نہیں کر سکا تو کیا جواب دیا جائے۔ اسی اثناء میں پنجاب اسمبلی کے باہر مسلم لیگ(ن) سراپا احتجاج بنی رہی۔ ان کا موقف تھا کہ اسمبلی کو تالے لگا دیئے گئے ہیں۔ حمزہ شہباز قائد حزب اختلاف پنجاب اسمبلی کی حیثیت سے پہنچے تو فرمایا کہ عمران نیازی نے پنجاب اسمبلی نہیں جمہوریت کو تالا لگایا ہے۔ حمزہ شہباز جب یہ ارشادات فرما رہے تھے تو وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری سینٹ کے باہر اپوزیشن کی جماعتوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ یہ کسی ایک روز کا ذکر نہیں بلکہ روز کی کہانی ہے۔ پاکستان کے عوام کو اصل مسائل روٹی، کپڑا اور مکان کے درپیش ہیں جس کا نعرہ پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے لگایا تھا۔ بھٹو کا نواسہ آج کئی سال بعد دوبارہ بھٹو کی پھانسی پر انصاف حاصل کرنے کے لئے عدالت میں نظرثانی اپیل دائر کر چکا ہے۔ کیا بلاول بھٹو زرداری کو انصاف ملے گا؟ بینظیر بھٹو قتل کیس کا خود 2008ء سے 2013ء تک پانچ سالوں تک پیپلزپارٹی کی حکومت کچھ نہیں کر سکی۔ 90ء کی دہائی میں محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے بھائی مرتضیٰ بھٹو کے قتل کا کچھ نہیں کر سکیں تھیں۔ بہرحال بات عوامی مسائل کی ہو رہی تھی عوام کو جن تین مسائل کا سامنا ہے وہ آج بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ حکومتی صفوں میں کیا ہوتا ہے اس سے عوام کو کوئی سروکار نہیں لیکن ہر آنے والی حکومت زرمبادلہ کے ذخائر سے شروع ہو کر جی ڈی پی کی شرح اور افراط زر کے رونے رونے لگتی ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان آج وزیراعظم کی حیثیت سے سو مرتبہ عالمی مالیاتی اداروں پر لعنت بھیجنے کے بعد آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے کے لئے وفاقی وزیرخزانہ اسد عمر کو اجازت دے چکے ہیں۔ اب دو مسائل ہیں ایک حکومتی اور دوسرے عوامی، عوام کے مسائل حل کرنا درحقیقت ہر حکومت کی ترجیح ہونی چاہیے۔ فی الوقت تحریک انصاف کو یہ فائدہ حاصل ہے کہ وہ موقف اختیار کر رہی ہے کہ ان کی حکومت کو آئے زیادہ وقت نہیں گزرا لیکن معاملات جس نہج پر کھڑے ہیں بیوروکریسی جس طرز پر چل پڑی ہے اور سب سے بڑھ کر بیوروکریسی میں بھرتیاں جس طریقے سے ہوتی رہیں کیا عمران خان کی حکومت اس تناظر میں سب کچھ ٹھیک کر لے گی۔ سچ پوچھئے تو صرف ایک امید رکھی جا سکتی ہے لیکن وثوق کے ساتھ کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ عوام میں اتنی زیادہ محرومی ہے کہ گزشتہ روز ڈالر کی قیمت میں اضافے کے بعد مہنگائی کی شرح میں 10فیصد اضافہ متوقع ہے کی خبریں عوام پر بجلی بن کر گریں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عوام کی محرومی حل کرنے کا کوئی سادہ سا فارمولا ہماری حکومت کے پاس ہے یا نہیں۔ حکومتی مسائل میں معیشت سے متعلقہ جن امور کا پہلے تذکرہ کر چکے، اگر ان کو حکومت صرف اس لئے بہتر بنانا چاہتی ہے کہ ریاستی اداروں اور حکومتی وزراء کے اخراجات کو برداشت کیا جا سکے تو یقین جانیے اس سے بڑی حماقت کوئی نہیں ہے۔ عمران خان ایک بات بھول چکے ہیں انہیں اسے ازسرنو ذہن نشین کرنا چاہیے کہ وہ ریاست مدینہ کی طرز پر حکومت چلانے کا اعلان کر کے آئے تھے۔ ریاست مدینہ کی بنیاد اللہ پر توکل کا وہ آفاقی نظریہ تھا جس کے لئے مدینہ میں تربیت کے سرخیل سرورکائنات حضرت محمدﷺ بنے تھے۔ وزیراعظم انہیں بار بار پوری دنیا کا سب سے بڑا لیڈر قرار دیتے ہیں تو اس میں شک و شبہ کی گنجائش موجود نہیں لیکن انہیں ریاست مدینہ کی طرز پر چلانا ہو گا۔ اس طرح سے باخدا سارے معاملات اللہ رب العزت کے ہاتھوں میں آ جائیں گے اور خود اللہ ان کی نگرانی کرے گا، اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو پھر ایک حدیث پرکالم کا اختتام کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا یہ دنیا کافر کے لئے جنت اور مسلمان کے لئے قیدخانہ ہے۔ تاریخ کا سبق ہے کہ جو حکمران مصلے پر راتیں گزار کر اللہ سے مانگتا رہا اس کی حکومت آج بھی سنہری حروف میں زندہ و تابندہ ہے۔ اللہ سے مانگیں، راستہ محمدیﷺ طریقے اپنانے پر اللہ خود بناتا اور دکھاتا جائے گا اس کے علاوہ سب بے کار ہے اور روز سیاسی تماشا لگتا ہے، صحافتی لوگ بیٹھتے ہیں اور افسوس آج کا دانشور کرنٹ افیئر میں ایسا پھنسا ہوا ہے کہ اسے معاشرت، مزاج اور مسائل کا علم نہیں رہا۔ اس کی بنیادی وجہ بھی اس آفاقی دین سے دوری ہے جس کے ہم کبھی پیروکار اور کبھی ٹھیکیدار بن کر سامنے آتے ہیں۔
جناب وزیراعظم، راستہ تو ایک ہی ہے، ذرا یاد کیجئے
Oct 12, 2018