سُلطان العاشقین حضرت علامہ مہر محمد خاں ہمدم

رانا محمد یوسف ہمدمیؔ

روز اول سے یہ دستور چلا آرہا ہے کہ اس جہان آب و گل میںآنے والا ہر شخص اپنا مقررہ وقت گزارنے کے بعدجب دار بقا کی طرف عازم سفر ہوتا ہے تو اہل دنیا کا رویہ ہر انسان کے حوالے سے مختلف ہوتا ہے بعض لوگ وہ ہوتے ہیں جنہیں قبر میں اتارنے کے بعد ایصالِ ثواب تو دور کی بات انہیں یاد کرنے والا ،ان کے حق میں چند کلمات خیر کہنے والا کوئی نہیں ہوتا ، پیر طریقت رہبر شریعت حضرت علامہ مہر محمد خاں ہمدم ؔ 1916ء میں ریاست پٹیالہ (ہندوستان ) کے معروف شہر سنور کے ایک علمی اور روحانی گھرانے میںایک صوفی منش شخصیت جناب الٰہی بخش خاں کے ہاں پیدا ہوئے ۔آپ رحمۃ کے گھر کا ماحول انتہائی پروقار اور علمی و فکری ہونے کی بناء پر آپ کے دل میں ابتداء ہی سے دینی تعلیم کے حصول نے گھر کر رکھا تھاجس کی تکمیل کے لئے آپ رحمۃ نے چار سال دس دن کی عمر میںباقاعدہ تعلیم کا آغاز کیا۔ ابتدائی تعلیم آپ رحمۃ نے اپنے آبائی شہر سنور سے حاصل کی بعد ازاں حفظ قران کی تکمیل اور تجوید و قرات کی تعلیم کے لئے استاذ القرا ء جناب قاری حفیظ الدین پانی پتی کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے کے لئے پانی پت کا سفر اختیار کیا جو اس زمانے میں پورے برصغیر میں فن تجوید و قرات کے حوالے سے بہترین استاد کے طور پر جانے جاتے تھے ۔ آپؒ نے سولہ برس کی عمر کو پہنچنے تک ابتدائی علوم کی تکمیل کے ساتھ ساتھ بہترین حافظ قرآن اور خوش الحان قاری ہونے کا اعزازبھی پانی پت سے حاصل کر لیا تھا ۔
ابتدائی تعلیم اور حفظ و تجوید سے فراغت کے بعد آپ علوم اسلامیہ و دینیہ کی تحصیل کے لئے مفتی اعظم ریاست پٹیالہ ( ہندوستان)حضرت علامہ مولانا محبوب علی خاں کی خدمت میںحاضر ہوئے جہاں آپ نے شب و روز محنت کر کے فقہ ، اصولِ فقہ ، منطق ،فلسفہ اور دیگر مروجہ علوم و فنون حاصل کئے ۔بعد ازاں آپ رحمۃ نے عالم اجل مولانا عبدالجلیل خاںصدرمدرس دارالعلوم عربیہ حنفیہ کریمیہ شہر جالندھر (ہندوستان ) سے شرح جامی، ہدایہ، مشکوٰۃ شریف اور دیگر علوم عقلیہ و نقلیہ کی تعلیم حاصل کی،لیکن آپ رحمۃ اللہ کی علمی تشنگی ابھی باقی تھی جسے بجھانے کے لئے آپ رحمۃ اللہ نے ریاست پٹیالہ سے لاہور کی طرف رخت سفر باندھا اوروہاں پہنچ کر دارالعلوم حزب الاحناف کے بانی قبلہ مفتی اعظم حضرت علامہ مولانا ابو البرکات سید احمدشاہ قادری ا شرفی رحمۃاللہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور اسی عظیم درسگاہ میں تمام مروجہ علوم و فنون کی تکمیل کے علاوہ قبلہ سید صاحب سے درس حدیث لے کر سند فراغت اور ان کے روحانی سلسلہ عالیہ قادریہ میں اجازت و سند خلافت بھی حاصل کی ۔
حضرت علامہ مہر محمد خاں ہمدم ؒنے حزب الاحناف لاہور میں تعلیم کے دوران ہی اپنی روحانی پیاس بجھانے کے لئے مفتی اعظم شیخ العرفاء والسلکاء حضرت علامہ ابوالبرکات سید احمد شاہ رضوی مشہدی قادری اشرفی کے دست مبارک پر سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت کی، اسی دوران تصوف اور سلوک کی روحانی منازل طے کرنے پر آپ رحمۃ اللہ کو سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مرتضائیہ میں حضرت پیر طریقت شیخ کامل خواجہ مہر محمد صوبہ رحمۃاللہ نے اجازت و خلافت سے نوازا۔ علاوہ ازیں آپ رحمۃ اللہ کو دیگر مشائخ نقشبندیہ قادریہ کی طرف سے سلسلہ عالیہ توکلیہ اور با لخصوص سلسلہ عالیہ مرتضائیہ میںخواجہ نور محمد فنافی الرسول رحمۃاللہ نے اجازت و خلافت سے بھی نوازا ۔ قیام پاکستان کے بعد اس مملکت خدا داد کے استحکام اور نظام مصطفیؐکے عملی نفاذ کے لئے کی جانے والی تمام تر کوششوں کو منظم کرنے کے لئے تحریک پاکستان میں مثالی کردار ادا کرنے والے علماء و مشائخ کرام کو غزالی زماں علامہ احمد سعید کاظمی رحمۃ نے ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے جمعیت علماء پاکستان کے نام سے سواد اعظم کی نمائندہ سیاسی جماعت تشکیل دی ، جس کے پہلے صدر علامہ ابو الحسنات قادری اور ناظم اعلی علامہ سید احمد سعید کاظمی مقرر ہوئے تو اس موقع پر علامہ مہر محمد خاں ہمدم رحمۃاللہ کو تحصیل چونیاں ضلع قصور کا صدر مقرر کیا گیا ۔
1953 ء میں مقام مصطفی ؐ کے تحفظ کی خاطر شروع ہونے والی تحریک ختم نبوت میں بھی آپؒ کا کردار صف اول کے قائدین میں سے کسی سے کم نہ تھا اسی دوران آپ رحمۃ اللہ کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں لیکن آقائے کریم رسول کائناتؐکی عظمت و ناموس کا تحفظ آپ رحمۃ اللہ ؒکا فرض اوّلین تھا اور اس فرض کی ادائیگی میں کسی قسم کی مصلحت آپ رحمۃ اللہ ؒکے راستے میں حائل نہ ہو سکی۔ آپ رحمۃ اپنی زندگی کے آخری سانس تک وطن عزیز میں نظام مصطفی ؐکے عملی نفاذ کے لیے جمعیت علماء پاکستان کی مساعی میں برابر کے شریک رہے ۔
محبت رسول ؐورامت مسلمہ کی خیر خواہی کے جذبۂ صادق کے تحت حضرت ہمدم نے تبلیغ دین کو اپنی زندگی کا مشن بنایا اور ساری زندگی اسی پر کار بند رہے۔ آپ ؒ نے ہوش سنبھالنے سے لے کرحیات مستعار کے آخری لمحے تک ایک ایک ساعت د ین اسلام کی تعلیم کے حصول و تبلیغ و اشاعت اور عشق رسول ؐ میں صرَف کی ۔ اسی بنا پر آپ رحمۃ اللہ کی گراں قدر دینی خدمات اور علمی و روحانی مرتبہ و مقام کا اعتراف آپ رحمۃ اللہ ؒکے معاصرین علماء و مشائخ نے آپ رحمۃ اللہ کی متعدد تصنیفات پر تقریظات لکھ کر کیا۔ جن میں جلیل القدر اسماء غزالی زماں رازی دوراں علامہ احمد سعید کاظمی، حکیم الامت مفتی احمد یار خاں نعیمی ، علامہ نوراللہ نعیمی ،شیخ القرآن علامہ عبد الغفورہزاروی ،علامہ عبدالمصطفی الازہری ، ابوالکلام صاحبزادہ سید فیض الحسن شاہ ،بیہقی دوراں علامہ سید محمود احمد رضوی ،سلطان الواعظین ابو النور مولانا محمد بشیر کوٹلوی ،پیر طریقت میاں جمیل احمد شرقپوری، الحاج مولانا ابو دائود محمد صادق ،رومی زماں الحاج مولانا محمد یعقوب حسین شاہ ضیاء القادری، علامہ شاہ عارف اللہ قادری اور شاعر پاکستا ن مولانا عزیز حاصل پوری سمیت ہندو پاکستان کے متعدد علماء کرام و مشائخ عظام اور شعراء کرام نے حضرت علامہ ہمدم رحمۃ اللہ کی دینی خدمات کو زبردست انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے مثلاً شیخ القرآن علامہ عبدالغفور ہزاروی نے شاہنامۂ اسلام (ہمدم ) پر ان الفاظ میں تقریظ رقم فرمائی ہے کہ ’’ مولانا ہمدم پٹیالوی نے تاریخ اسلام کو منظوم لباس ہی نہیں پہنایا بلکہ طرح طرح کی گلکاریوں سے بھی آراستہ فرمایا ہے اور بعض جگہ مولانا موصوف نے عمیق ترین تلمیحات اور استعارات کے رنگ میں تصوف کے ذوقیہ اور وجدانیہ اور کشفیہ مدارج و مقامات کی بھی تشریح فرمائی ۔تاریخ اسلام اور تصوف سے ذوق رکھنے والے حضرات کو چاہئے کہ کتاب ہذا کو ہمیشہ پڑھتے رہیں اور فیض حاصل کرتے رہیں رب العزت اپنے حبیب ؐ کے طفیل اس کو نافع و مقبول فرمائے اور مولانا موصوف کو مزید خدمت اسلام کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا ربَّ العالمین ‘‘ ۔
حضرت علامہ ہمدم نے سیرت خیر الانام المعروف بہ شاہنامۂ اسلام (ہمدم) معتبر حوالوں سے مزین منظوم تاریخ اسلام رقم کر کے ملت اسلامیہ کی بہت بڑی خدمت کی ہے جو آنے والی کئی نسلوں کو عشقِ رسالت مآب ؐکی دولت سے بہر مند کرکے ان کی زندگیوں میں محبت رسول ؐکی شمع روشن کرتی رہے گی ۔ انداز تحریر اس قدر جاذبیت کا حامل کہ اس کا مطالعہ کرنے والا اسے ادھور نہیں چھوڑ سکتا بلکہ یہ کتاب اس وقت تک اسے اطمینان نہیں لینے دیتی جب تک وہ اس کی تکمیل نہ کرلے،حضرت مصنف نے اس کتاب میں جاذبیت پیدا کرنے کے لئے اسے مقدمہ اور چار جلدوں میں تقسیم کیا ہے ۔مقدمہ میں سیرت مصطفی ؐ سے متعلق بنیادی امور کی تفہیم کے ساتھ ساتھ حضور اکرم ؐکے بارے میں انبیاء سابقین کی بشارات کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ اور اس کے بعد ہر جلد کو چار ابواب میں تقسیم کر کے قبل از اسلام تاریخ انسانیت سے شروع کر کے حضور اکرم ؐکی ظاہری حیات طیبہ کے آخری لمحات تک ہر مکتبہ فکر سے متعلق انسانوں کی ہدایت و راہنمائی کے لئے لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ کی حقانیت کا تذکرہ کیا ہے تاکہ ہر دور کا انسان رسول کریمؐکے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہو کر دنیا و آخرت کی بھلائیاں حاصل کرنے کے قابل ہو سکے۔
حضرت علامہ مہر محمد خاں ہمدم رحمۃ اللہ کی زندگی کا سب سے اہم اور نمایاں پہلو قرآن مجید، حضور نبی کریم ؐ کی ذات مبارکہ ا ور آپؐ کی آل پاک سے والہانہ محبت و عقیدت ہے جو حضرت علامہ ہمدم رحمۃ کی زندگی کے ہر گوشے میں نظر آتی ہے آپ رحمۃ کی شاعری ہو یا نثر نگاری ، آپ کی وعظ و تقریر ہو یادرس و تدریس ہر موقع پر ان رحمۃ کی ذات گویا عشق رسالت مآبؐکا عکس جمیل نظر آتی ہے ۔ آپ رحمۃ اللہ نے ہر حال میں اپنے آپ کو قرآن کریم اور دامن مصطفی ؐسے وابستہ رکھا۔ قرآن مجید حفظ کرنے سے لیکر زندگی کے آخری لمحے تک د س پاروں کی تلاوت روزانہ کا معمول رہا اور اسے کبھی ترک نہ کیا اور اسی طرح ہر سال ماہ رمضان المبارک میں نماز تراویح میں بھی باقاعدگی سے قرآن پاک سنایا ۔آپ رحمۃ اللہ کی تصنیفات میں متعدد کتب مثلاً شان قرآن ،قرآن شریف کا تعلیمی کورس دو حصص ،تسہیل البیان اور تفسیر نورانی وغیرہ کتاب اللہ سے آپ کی گہری وابستگی کا اظہار ہیں ۔
شان حسین المعروف بہ شہید کربلا سمیت کتب کثیرہ کے مصنف حضرت علامہ مہر محمد خاں ہمدم رحمۃ اللہ عشق رسالت مآب ؐ اور خدمت اسلام میں اپنی زندگی کے مصروف ترین شب و روز گزار کر 14اور 15 رجب المرجب کی درمیانی شب بمطابق 28اپریل 1983ء بروز جمعرات آپ رحمۃ اللہ اپنے مرید خا ص پیر رانا محمد ذکاء ا لدین خاں ہمدمیؔکے گھر پر منعقدہ میلاد مصطفی کی ماہانہ محفل میں یا رسول یا نبی۔ یا رسول یا نبی۔ یارسول یا نبیؐ کا نعرئہ مستانہ بلند کرتے ہوئے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔ آپ رحمۃ اللہ ؒ کاسلانہ عرس مبارک ہر سال بکرمی تقویم کے اعتبار سے اسوج کے آخری ہفتہ کو آستانہ عالیہ ہمدم چھانگا مانگا تحصیل چونیاں ضلع قصو ر میں آپ رحمۃ اللہ کے مزار پر انوار پر بڑی شان و شوکت سے منعقد ہوتا ہے جس میں اندرون و بیرون ملک سے کثیر تعداد میں علماء کرام ، مشائخ عظام ،حفاظ و قرا ء سمیت ہزاروں مریدین و عقیدت مند حضرات شریک ہوکر دارین کی برکتوں اور فیضان ہمدم رحمۃ اللہ سے مستفید ہوتے ہیں ۔ امسال بھی 13 اکتوبر بروزہفتہ2016 کو35واںسلانہ عرس مبارک منعقدہورہا ہے
آپ کے جانشین حضرت علامہ مولانا ا لحاج صاحبزادہ پیر محمد اقبال خاں رباّنی ہمدمیؔ نہ صرف آپ کے فیوض و برکات کی تقسیم اور سلاسل خیر کی ترویج و اشاعت میںمصروف ہیں بلکہ ان میں خوبصورت اضافہ بھی کر رہے ہیں ۔ جن میں فیضان ہمدم ٹرسٹ کا قیام آپ کا اہم کارنامہ ہے جس کے تحت آپ کی نگرانی میں بچوں اور بچیوں کی دینی تعلیم کے ادارے شب و روز سینکڑوں تشنگان علم کی پیاس بجھانے میں مصروف ہیں۔ جس کا عملی ثبوت ہر سال تنظیم المدارس کے سالانہ امتحانات میں درجنوں طلباء و طالبات شرکت کر کے نہ صرف اعلی پوزیشنوں میں کامیابی حاصل کرتے ہیں بلکہ پورے ضلع بھر میں ایک شاندار ریکارڈ بھی رکھتے ہیں ۔آپ نے انہیں طلباء و طالبات کی ضرورتوں کے پیش نظر 22 کنال پر محیط فیضان ہمدم یونیورسٹی کے و سیع و عریض کیمپس کی بنیاد رکھ کر وابستگان حضور سلطان العاشقین کی آنے والی نسلوں پر احسان فرمایا ہے ۔ آپ حضرت ہمدم رحمۃ اللہ ؒ کی علمی و روحانی وراثت کی ترسیل اور مزار پر ُاَنوار کی تعمیر و ترقی اور عالیشان مسجد کی تعمیر اس انداز سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔۔۔۔

ای پیپر دی نیشن