لاہور (رفیعہ ناہید اکرام) تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں رہنے کے باوجود پاکستان کی لاکھوں نوعمر لڑکیاں آج بھی صدیوں پرانے مسائل کی چکی میں پس رہی ہیں۔ کہیں ناخواندگی، گھریلو تشدد، مردانہ تعصبات اور چائلڈ میرج انکی جاں کے آزار بنے ہوئے ہیں تو کہیں انہیں تعلیم، صحت، آزادی رائے، کھیل کود جیسی کوئی تفریح اور بنیادی حقوق میسر نہیں، کہیں گڑیا سے کھیلنے کی عمر میں چائلڈ لیبر جہنم میں اپنا بچپنا کھو رہی ہیں تو کہیں درندہ صفت افراد ان کے دشمن بنے ہوئے ہیں اور کہیں کم عمری کی شادی کے باعث نفسیاتی، جسمانی اور سماجی مسائل کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں جس سے ان کا بچپن کھو کر رہ گیا ہے اور وہ معصوم جانیں والدین کی شفقت و رہنمائی سے دوری، دین کی روشنی سے محرومی اور جہالت کی تاریکی میں اپنی زندگی کو تلاش کرنے کی کوششوں میںخاک بسر ہیں مگر نجات کا رستہ دور دور تک نہیں ملتا۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 53%لڑکیاں جن کی عمر 15سال یا اس سے زیادہ ہے کبھی سکول نہیں گئیں پاکستان میں دیہی علاقوں میں 64%لڑکیاں کبھی سکول نہیں گئیں۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں13فیصد لڑکیاں 15سے 19عمر میں شادی شدہ زندگی کی ذمہ داریوںکا بوجھ اٹھانے پر مجبور کردی جاتی ہیں جبکہ دنیا بھر میں روزانہ 25ہزار بچیوں کو دلہنیں بنا دیا جاتا ہے اور روزانہ 6کروڑ لڑکیاں 18ویں سالگرہ سے قبل شادی کے بندھن میں بندھنے کی وجہ سے ذہنی وجسمانی صحت کے پیچیدہ مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں،2020ء تک دنیا کی 142ملین لڑکیاں اپنی 18ویں سالگرہ سے قبل شادی پر مجبور کردی جائیںگی۔ نوعمر بچیوں کے عالمی دن کے موقع پر’’نوائے وقت‘‘ سے گفتگو میںخواتین ارکان اسمبلی ڈاکٹر نوشین حامد اور راحیلہ خادم حسین نے کہا جب تک لڑکیاں بااختیار نہیں ہونگی انہیں مسائل سے نجات نہیں مل سکتی، نوعمر لڑکیوں کو حق کیلئے آواز اٹھانے کا ہنر سکھانا ہوگا۔ عورت فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر نبیلہ شاہین نے کہا کہ بیجنگ اعلامیہ کے مطابق دیکھنا ہوگا کہ پاکستان میں ایسی بچیاں جو سکول نہیں جاسکیں یا سکول جانے کی عمر میںسکول جا کر اسے جاری نہ رکھ پانے والی بچیوں کے مسائل کیا تھے اور کس طرح وہ اپنی تعلیم مکمل کریں، اپنا کام کاشعبہ منتخب کریں اپنی شادی کی عمر کو پہنچ کر اس معاملے میں آزادی سے فیصلہ کرنے کے قابل ہوں برابری کی سطح پر کام کا معاوضہ پاسکیں۔ لڑکیوں کی تعلیم صحت، معاشی بہتری کے لئے حکومت کے ملکی اور بین الاقوامی معاہدات پر غور کرنا ہوگا کہ لڑکیوں کے خلاف ہرقسم کے امتیاز، منفی رسومات، متعصانہ رویوں اور رواجوں کا خاتمہ ہونا چاہیے ، بچوں کے حقوق کی تنظیم سرچ فار جسٹس کے رہنماؤں افتخار مبارک اور راشدہ قریشی نے کہا کہ چائلڈمیرج کی شرح دنیا میں دیہی علاقوں اور غریب ترین علاقوں میں زیادہ ہے، پاکستان میں چائلڈ میرج ایکٹ 1929 پر نظر ثانی کرکے اسے مؤثر بناکراس پر سختی سے عملدرآمد کروانا ضروری ہے، دینی سکالر ڈاکٹر راغب نعیمی نے کہا کہ اسلام فرسودہ رسوم و رواج کے تحت بچیوں اور خواتین کے ساتھ ہونے والے کسی بھی طرح کے ظلم کی قطعاً حمایت نہیں کرتا۔