اورجو چیزانسانوں کو فائدہ پہنچاتی ہے...

Oct 12, 2020

تقریباً ایک سال قبل، میں نے اخبار میں ایک خبر پڑھی کہ کراچی سینٹرل جیل میں ایک قیدی پانچ ہزار روپے جرمانہ ادا نہ کرسکنے کے باعث کئی ماہ کی سزا کاٹ رہا ہے۔خبر میں اس کے جرم کا ذکر نہ تھا لیکن یقینا یہ کوئی معمولی نوعیت کا ہوگا جس کا اندازہ جرمانے کی رقم سے لگایا جاسکتا تھا۔میں نے اسی روز اپنے بڑے بیٹے کو پانچ ہزار روپے دے کر ایک معروف فلاحی تنظیم کے دفتر میں بھیجاتاکہ اس کے توسط سے جرمانے کی رقم کی ادائیگی پر قیدی کو رہا کرادیا جائے۔بیٹے نے مجھے تنظیم کے دفتر سے فون کرکے بتایا کہ اس کا تو بہت لمبا چوڑا طریقِ کار ہے۔اسے خود (تنظیم کے نمائندے کے ہمراہ)جیل اور عدالت کے چکر لگانے ہوں گے،کئی جگہ’’خیراندیش‘‘کی حیثیت سے دستخط کرنے ہوں گے،اپنی مکمل شناخت کا ریکارڈ عدالت اور جیل حکام کوفراہم کرنا ہوگا وغیرہ۔دوسرا آسان طریقہ یہ ہے کہ پانچ ہزار روپے کی رقم مع دوہزار روپے بطور’’سروس چارجز‘‘تنظیم کے نام جمع کرادی جائے۔تمام کارروائی تنظیم خود کرکے ہمیں مطلع کردے گی۔اب ظاہر ہے، اضافی دو ہزار سے اتنی جھنجٹ دور ہورہی تھی لہٰذا میرے بیٹے نے سات ہزار روپے جمع کراکے رسید حاصل کرلی۔اس کے بعد اُن روپوں اوراُس بے کَس قیدی کا کیا ہوا، ہمیں آج تک اس کا کچھ علم نہیں ۔گذشتہ دنوں مجھے اپنے ایک دوست ڈاکٹرانعام الحق جاوید صاحب کی طرف سے وفاقی محتسب کے بارے میں کچھ تحریری مواد موصول ہوا جسے پڑھ کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ڈاکٹر انعام الحق جاوید کو میں ایک مقبول شاعر،ادیب اور دانشور کی حیثیت سے جانتا ہوں۔اب یہ معلوم ہوا کہ وہ اس قومی ادارے سے بحیثیت میڈیا کنسلٹنٹ اور ایڈوائزر/کمشنرشکایات برائے بیرونِ ملک پاکستانی وابستہ ہوگئے ہیں۔ان کے بھیجے ہوئے تعارفی لٹریچر کے ذریعے یہ بات میرے علم میں آئی کہ وفاقی محتسب کا ادارہ(عوام کو دیگر متعدد خدمات کی فراہمی کے علاوہ)مخیر حضرات کے تعاون سے نادار قیدیوں کا جرمانہ ادا کرکے ان کی رہائی کو بھی ممکن بناتا ہے۔یہ پڑھ کر مجھے اپنی پچھلے سال کی پُرخلوص مدد کے بارے میں وسوسوں نے گھیر لیا ۔میں جوں جوں وفاقی محتسب کے دائرۂ کار کے بارے میں پڑھتا گیا میری حیرانی میں اضافہ ہوتا رہا۔مختصر اً یہ سمجھ لیجیے کہ وفاقی حکومت کے مختلف اداروں کے ہاتھوں ستائے ہوئے شہریوں کی ٹھوس مدد اِس ادارے کا Mandate(فرضِ منصبی)ہے۔عموماً اس مقصد کے لیے عدالتیں موثر ترین ذریعہ سمجھی جاتی ہیں(اس میں کوئی شک بھی نہیں)لیکن عدالتوں کے برعکس وفاقی محتسب کے پاس شکایت درج کرانے کے لیے کسی وکیل،ضامن،کورٹ پیپر،فیس،سروس چارجز وغیرہ کی ضرورت نہیں۔یہاں شہری کی رسائی براہِ راست ،اسکائپ،آئی ایم او،انسٹاگرام، ڈاک،فیکس،فون یاشخصی طور ہوتی ہے ۔عدالتوںمیں مقدمات کے فیصلوں کی کوئی مدت معین نہیں لیکن وفاقی محتسب تمام شکایات کے فیصلے مقررہ ساٹھ دن کی مدت میں کرنے کے پابند ہیں۔صحیح معنی میں یہ ادارہ جلد اور سستے انصاف کی فراہمی کا انتہائی موثر آلہ ہے۔یہ جوکام کررہا ہے ،نظر آتا ہے۔1983ئ؁ میں اپنے قیام کے بعد سے اب تک یہ ادارہ دس لاکھ پچاس ہزار شکایات پر فیصلے کرچکا ہے۔زیادہ لائقِ ستائش بات یہ ہے کہ اس کے 97فی صد فیصلوں پر عمل درآمد بھی ہوا۔سمندرپار پاکستانیوں کے معاملات کے فوری حل کی خاطر وفاقی محتسب نے ایک’’شکایات کمشنر‘‘مقرر کیا ہے۔علاوہ ازیں، ملک کے آٹھ بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر’’ون ونڈو ڈیسک‘‘قائم کیے ہیں جہاں بارہ سرکاری اداروں کے نمائندے چوبیس گھنٹے موجود رہتے ہیں تاکہ مسافروں کی شکایات پر کارروائی ایک چھت کے نیچے ہوسکے۔یہی نہیں،وفاقی محتسب سیکریٹریٹ میں بیرونِ ملک پاکستانیوں کی شکایات آن لائن بھی سنی جارہی ہیں۔یوں وفاقی محتسب کا ادارہ اہلِ وطن کے لیے ایک نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں۔پاکستان کا عام شہری غریب ہے۔وہ بے وسیلہ نہیں تو کم وسیلہ ضرور ہے۔یہ ادارہ ان کا سب سے بڑا وسیلہ بن چکا ہے۔اس کا کام محض شکایات کا ازالہ نہیں بلکہ یہ شکایات کی اصل وجوہ کے تدارک کے لیے بھی مصروفِ عمل ہے۔یعنی نظام کی خامیوں،کمزوریوں اور ناہمواریوں پر بھی اس کی نظر ہے۔ان معائب کی نشاندہی اور بیخ کنی نیز طریقۂ کار کی اصلاح کے بغیر شکایت کی جگہ شکایت ابھرتی رہے گی،نااہلی،بد انتظامی اور بد عنوانی کے ناسور پلتے رہیں گے اور شہری اس شعر کی تصویر بنے رہیں گے   ؎
علاجِ دردِ دل  تم  سے  مسیحا  ہو نہیں  سکتا
تم اچھا کرنہیں سکتے،میں  اچھا  ہو نہیں سکتا
 (مضطرؔخیرآبادی)
ایک اہم بات موصول شدہ دستاویزات سے یہ معلوم ہوئی کہ وفاقی محتسب کا ادارہ بچوں کے مسائل حل کرنے کا بھی ایک بہترین فورَم ہے۔پاکستان میں اس وقت تقریباًساڑھے دس کروڑ بچے ہیں۔وفاقی محتسب نے ان کے حقوق اور مسائل جاننے کی غرض سے ایک نیشنل چلڈرن کمیٹی قائم کی ہے جس کے سربراہ معروف قانون داں جناب ایس ایم ظفر ہیں اور جس میںارکانِ پارلیمنٹ،قانون نافذ کرنے والے اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندوں کے علاوہ ممتاز سماجی شخصیات شامل ہیں۔اس کمیٹی نے اہلِ خیر کے تعاون سے لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں قیدی بچوں کے لیے پہلا ’’سوئٹ ہوم‘‘ قائم کیا ہے تاکہ انھیں کھلے ماحول میں تعلیم و تربیت اور صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں۔یہ ایک بہت نیکی کا کام ہے اور اس کی جتنی بھی قدر کی جائے کم ہے کیوں کہ بہت سے معصوم بچے اپنی قیدی مائوں کے ساتھ جیل میں رہنے پر مجبور ہیں۔ میں نے ایک نظر وفاقی محتسب کی ششماہی کارکردگی(جنوری تا جون2020ئ؁)پر ڈالی تو یک گونہ خوشی ہوئی کہ ملک میں کوئی تو ادارہ ایسا ہے جسے شہری اپنا کہہ سکتے ہیں۔ سید طاہر شہباز کی سربراہی میں یہ ادارہ بلاشبہ اپنے اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے شبانہ روز کوشاں ہے۔"Work speaks"(کام بولتا ہے)کی کہاوت اس پر سو فی صد صادق آتی ہے۔کچھ عرصے قبل ایوانِ صدر میں ’’محتسبین کانفرنس‘‘منعقد ہوئی جس میں سید طاہر شہباز صاحب نے بتایا کہ رواں سال کی پہلی ششماہی میں ادارے کو47,285شکایات موصول ہوئیں۔ ان میں سے 41,071پر فیصلے ہوئے۔یہ تناسب85فی صد سے زیادہ آتا ہے جو بہت حوصلہ افزا ہے۔اس بریفنگ میں طاہر شہباز صاحب نے یہ بھی بتایا کہ ان کے دفترکی کارکردگی کوروناوبا کی شدت کے دوران بھی متاثر نہیں ہوئی۔وہ خودتمام علاقائی دفاتر کو وڈیو لنک کے ذریعے شکایات کنندگان کو ریلیف فراہم کرنے کی ہدایات دیتے رہتے تھے اورمختلف معاملات پر پیش رفت رپورٹ سے خود کوباخبر رکھتے تھے۔اب ایک پائلٹ پروجیکٹ تیار کیا گیا ہے جس کے ذریعے دُوردرازعلاقوں میں عوام کو ان کے گھر کی دہلیز پر انصاف فراہم کیا جاتا ہے۔اس کے تحت ادارے کے افسران تحصیل اور ضلعی ہیڈکوارٹرز میں جاکر شکایات وصول کرتے ہیں۔ان شکایات پر مناسب چھان بین کے بعد زیادہ سے زیادہ 45دن میں فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ان علاقوں میں کھلی کچہریاں بھی لگائی جاتی ہیںجن سے عام لوگ بھرپور فائدہ اٹھارہے ہیں۔میں یہ جان کربے حد متاثر ہوا کہ بلوچستان کے علاقے خاران میں بھی وفاقی محتسب کا علاقائی دفتر حال ہی میں قائم کیاگیا ہے اور اب ایسے ذیلی دفاتر کی تعداد14ہوگئی ہے۔شکایات کے فوری ازالے کے لیے وفاقی حکومت کے کئی اداروں کو وفاقی محتسب کے کمپیوٹرائزڈ نظام سے منسلک کیا جاچکا ہے جب کہ بقیہ کو کیا جارہا ہے۔اس طرح روایتی’’سرخ فیتے‘‘کو ختم کرنے میںمدد ملے گی۔پاکستان جیسے ملک میں عوامی شکایات پر فوری کارروائی بظاہر ایک خام خیالی ہے لیکن وفاقی محتسب کی رپورٹ پڑھ کراندازہ ہوا کہ All is not lost(سب کچھ ہی ختم نہیں ہوگیا ہے)۔آج بھی کام کرنے والے لوگ /ادارے موجود ہیں جنھیں شہریوں کی تکالیف کا احساس ہے اور وہ انھیں رفع کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔وفاقی محتسب کے کاغذات کے مطابق محتسب اور احتساب کا تصور حضرت عمرؓ کے دور میں شروع ہوا اور آپ ہی نے پہلا محتسب مقرر کیا۔یہ درست ہے لیکن اگر وفاقی محتسب کے ’’فرائض وفضائل‘‘کی تہ میں جائیں تو اس میں مظلوم کی دادرسی کا تصور کارفرمانظرآتا ہے جو اسلامی تعلیمات کی روح ہے۔پیغمبراسلام حضرت محمدﷺ اپنی بعثت سے قبل مکّہ کے نوجوانوں کی ایک تنظیم’’حِلف الفضول‘‘میں شامل تھے جس کا کام مظلوموں کی حمایت کرنا اور انھیں ’’ریلیف‘‘ فراہم کرناتھا۔عہدِ نبوت میں بھی آپ ﷺاس تنظیم سے وابستگی پر فخر کرتے تھے۔میں سمجھتا ہوں کہ وفاقی محتسب کے ذمے داران اپنے فرائض عبادت سمجھ کراداکریں تو یہ اس ارشادِ ربانی کے مفہوم کی مصداق ہوگا:’’اور جو (چیز)لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہے،زمین پر باقی رہتی ہے۔‘‘(الرعد:17)

مزیدخبریں