اسلام آباد (خبر نگار خصوصی) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ افغانستان میں ایک جامع حکو مت ہمسایہ ممالک کی خواہش ہے۔ داعش سے چھٹکارے کیلئے طالبان بہترین اور واحد آپشن ہیں، انہیں تنہا کرنے اور پابندیاں عائد کرنے سے افراتفری اور انسانی بحران جنم لے سکتا ہے۔ افغانستان کو تنہا چھوڑنے کے منفی اثرات ہوں گے۔ افغانستان میں افراتفری سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہو گا۔ افغانستان سے انخلا کے بعد کے حالات سے امریکی صدمہ میں ہیں۔ امریکہ کو قائدانہ کردار ادا کرنا ہو گا۔ امریکی عوام کو اصل صورتحال سے کبھی آگاہ ہی نہیں کیا گیا۔ تحریک طالبان پاکستان کے جن لوگوں سے صلح ہو سکتی ہے ان سے بات چیت کی کوشش کر رہے ہیں۔ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ پاکستان نے انہیں الحاق کے علاوہ بھی آپشن دیا ہے۔ اگر وہ آزاد ملک کے طور پر رہنا چاہتے ہیں تو انہیں یہ جمہوری حق حاصل ہو گا۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالہ سے مشرق وسطی کے کسی ملک نے ہم پر دبائو نہیں ڈالا۔ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے، وہ اپنے عوام کو اعتماد میں لئے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔ دہشت گردی کا اسلام سے تعلق جوڑنا درست نہیں۔ نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیموں نے پاکستان کا دورہ منسوخ کر کے مایوس کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے پیر کو مڈل ایسٹ آئی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد رونما ہونے والے واقعات ابھی ارتقائی مراحل میں ہیں، معلوم نہیں کہ یہ کیا کروٹ لیں گے۔ امریکہ کے انخلا کے بعد وہاں ایک خلا پیدا ہوگا۔ ہر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ ایک زبردست موقع ہے کیونکہ افغانستان ان تمام ممالک کیلئے ایک تجارتی گزرگاہ ہے۔ وسط ایشیائی ممالک افغانستان کے راستے بحر ہند اور پاکستان تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ یا چین کا طرفدار ہونے کے سوال کے بجائے اقتصادی تعاون اور اقتصادی رابطہ ہونا چاہیے جو اس خطہ کی ضرورت ہے اور ہم یہی امید کرتے ہیں۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بیس سالہ خانہ جنگی سے افغانستان میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ حقیقت میں افغان حکومت کا کنٹرول صرف شہروں کی حد تک تھا۔ دیہی علاقے طالبان کے زیرِ اثر تھے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ طالبان نے حکومت سنبھال لی ہے۔ بیس سال بعد اقتدار میں آنے کے بعد ایسے لوگوں سے معاملہ کرنے میں بہت مشکل پیش آتی ہے جنہوں نے آپ کے ساتھ ملکر بہت سی قربانیاں دی ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ افغانستان میں ایک جامع حکومت بنے۔ طالبان حکومت بھی چاہتی ہے کہ انہیں بین الاقوامی قبولیت ملے۔ وہ انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ افغان سرزمین دہشت گردی کیلئے استعمال نہ ہونے دیئے جانے کی بات کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ افغانستان کیلئے بہت نازک لمحہ ہے۔ دنیا کو افغانستان کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے ۔ اگر انہیں دور کریں گے تو بڑی آسانی سے معاملات بیس سال پرانے طالبان کے ہاتھوں میں جا سکتے ہیں جو کہ تباہی ہو گی اور اس سے نیٹو کی بیس سالہ موجودگی، دوہزار ارب ڈالر کا خرچہ، لاکھوں لوگوں کا جان سے جانا ضائع جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بحران کی واپسی سے وہاں افراتفری ہوگی۔ افغانستان آئی ایس آئی ایس جیسے دہشت گردوں کیلئے ایک زرخیز زمین بن جائے گی جو کہ درحقیقت ہم سب کیلئے پریشانی کا باعث ہے۔ ایک مستحکم افغان حکومت آئی ایس آئی ایس سے بہتر طور پر نمٹ سکتی ہے۔ وزیراعظم نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہمارے سکیورٹی کے سربراہان کی امریکی حکام سے بات چیت ہوئی۔ ہمارے وزیر خارجہ کا امریکہ کے وزیر خارجہ سے رابطہ ہے، ہم رابطے میں ہیں، ہم یہ ساری باتیں امریکہ کے ساتھ کر چکے ہیں۔ میں سینٹ میں ان کی کارروائی سن رہا تھا، امریکہ میں صدمہ کی کیفیت ہے، انہیں یقین نہیں آرہا کہ افغانستان میں ہوا کیا ہے۔ کیونکہ ان کو واضح طور پر بتایا گیا تھا کہ افغانستان میں جمہوریت لائی گئی ہے، خواتین کو آزاد کردیا گیا ہے، افغان ایک قوم بن رہے ہیں تاہم وہ یقین نہیں کر پا رہے کہ طالبان دوبارہ اقتدار میں آگئے ہیں۔ 2008 میں امریکی تھنک ٹینکس اور سینیٹر بائیڈن، سینیٹر جان کیری اور ہیری ریڈ سے ملاقات میں ان پر واضح کر دیا تھا کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں نکل سکتا۔ اس وقت وہ عراق کی بات کر رہے تھے، میں نے انہیں کہا کہ وہ اس سے بہت بڑی دلدل ثابت ہو گی۔ وہ افغانستان کی تاریخ سے واقف نہیں تھے۔ ہمارے آرمی چیف جنرل کیانی دو سال بعد وہاں گئے۔ انہوں نے صدر اوباما سے کہا کہ آپ بہت بڑا گند افغانستان چھوڑ آئیں گے جس سے ہمیں نبردآزما ہونا پڑے گا اور آپ کوئی فوجی حل نہیں نکال سکیں گے۔ بد قسمتی سے صدر اوباما اس وقت جرنیلوں کے ہتھے چڑھے ہوئے تھے اور جرنیلوں نے ہمیشہ کی طرح مزید فوجی اور وقت مانگا اور کہا کہ ہم جنگ جیت جائیں گے۔ اشرف غنی کی حکومت پوری طرح کرپٹ تھی پہلی بات یہ کہ انہیں کٹھ پتلی حکومت کے طور پر دیکھا گیا دوسرا ایک کرپٹ حکومت کے طور پر تو ان کے لئے کون لڑتا۔ وزیراعظم نے کہا کہ کابل میں خواتین کیلئے ثقافت دیہی علاقوں کے مقابلے میں ہمیشہ سے مختلف رہی ہے۔ دیہی علاقوں میں خواتین کی زندگیاں تبدیل نہیں ہوئیں۔ طالبان نے اچھے بیانات دئیے۔ ہمارے پاس دوسرا کوئی آپشن موجود نہیں۔ اگر ہم ان پر پابندیاں عائد کرتے ہیں توافغانستان میں بہت بڑا انسانی بحران پیدا ہوجائے گا۔ بہتر یہی ہے کہ انہیں ترغیبات دیں کہ جو وہ کہہ رہے اس پر عمل کریں۔ اگر آپ انہیں مجبور کریں گے تو جس قسم کے وہ لوگ ہیں وہ مزاحمت کریں گے، یہ الٹا نقصان د ہ ثابت ہو گا۔ ٹی ٹی پی کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی سرحد کے پاکستانی جانب کے پشتون ہیں۔ طالبان پشتونوں کی تحریک ہے، افغانستان میں 45 سے 50 فیصد پشتون آباد ہیں۔ برطانیہ کی جانب سے کھینچی گئی ڈیورنڈ لائن کی پاکستانی جانب دوگنا پشتون آباد ہیں۔ تاہم جو علاقہ قبائل کہلاتا ہے اس کے دوسرے جانب بھی پشتون قبائل ہیں۔ جب امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوا انہوں نے طالبان کو نکال باہر کیا تو اس طرف کے پشتونوں کو افغانستان کے پشتونوں سے مکمل ہمدردی ہو گئی۔ اس ہمدردی کی وجہ مذہبی نظریات نہیں تھے بلکہ پشتون عصبیت اور قومیت تھی جو بہت مضبوط ہے۔ جب ہم امریکہ کے اتحادی بن گئے تو پشتون ہمارے مخالف ہو گئے۔ انہوں نے ہمیں امریکہ کا ساتھی کہا اور ریاستِ پاکستان پر حملہ آور ہوگئے اور خود کو پاکستانی طالبان کہنا شروع کر دیا جو ہمارے اتحاد کا حصہ بننے سے پہلے ہمارے ہاں نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ پچاس کے قریب مختلف گروہ جو خود کو طالبان کہتے تھے ہم پر حملہ آور تھے۔ پشتونوں سے لڑنے والوں کے ہم ساتھی نہیں ہیں۔ کشمیر کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ حقیقت میں اس وقت کشمیر ایک کھلی جیل ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اب ہم اس کو ایک علاقائی مسئلے کے طور پر نہیں دیکھ رہے ہیں۔ اب گیند بھارت کی کورٹ میں ہے، وہ غیر معینہ مدت تک ان لوگوں کو ایک کھلی جیل میں نہیں رکھ سکتے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پوری دنیا میں نیوکلیئر فلیش پوائنٹ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہی ہے۔ جہاں دو جوہری ملک جن کے درمیان جوہری ملک بننے سے قبل تین جنگیں ہو چکی ہیں لیکن اس وقت سے نیوکلیئر ڈیٹرنس کی وجہ سے ہمارے درمیان جنگ نہیں ہوئی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب کشمیر میں خود کش بم دھماکہ ہوا اور اس میں بھارتی فوجی مارے گئے جس کا الزام انہوں نے پاکستان پر لگایا، ہم یہ کہتے رہے کہ ہمیں ثبوت فراہم کریں اور ہم اس کے ذمہ داروں کو سزا دیں گے بلکہ ان کو بھارت کے حوالے کر دیں گے لیکن ہمیں ثبوت فراہم کرنے کی بجائے انہوں نے ہمارے اوپر بمباری کی، خوش قسمتی سے اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، پاکستاں نے اس کا رد عمل دیا اور ایک بھارتی جنگی طیارہ بھی مار گرایا۔ اس صورتحال میں، مجھے ملک کے چیف ایگزیکٹو کے طور پر لگتا ہے کہ حالات کسی طرف بھی جا سکتے تھے۔ ہم نے ان کے پائلٹ کو فوری طور پر واپس کر دیا تاکہ صورتحال کو معمول پر لایا جائے۔ وزیراعظم نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اسرائیل اور بھارت کے درمیان قریبی تعلقات ہیں۔ نریندر مودی کے دورہ اسرائیل سے واپسی پر کشمیر پر چڑھائی اور 5 اگست 2019 کے اقدام سے کیا ہم سمجھ سکتے ہیں کہ انہوں نے وہاں سے ہدایات لیں کیونکہ یہی کچھ اسرائیل نے بھی کیا ہے۔ بھارت کو چین کے خلاف مزاحمتی قوت سمجھا جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ایسے ہی ہے کہ بھارت بھی کسی بھی صورتحال سے بچ نکلے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ میرا نکتہ یہ ہے کہ جب وہ ہمیں دیگر جگہوں پر انسانی حقوق کے تناظر میں بات کرنے کو کہتے ہیں‘ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی تو کشمیر میں ہورہی ہے، کشمیر سے بدتر صورتحال کہیں بھی نہیں ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں اس کیلئے مسلمان ملکوں کی قیادت کو بھی ذمہ دار ٹھہراتا ہوں۔ پہلی بات یہ ہے مسلمان ملکوں کی قیادت نے اس بات کی اجازت کیوں دی کہ دہشت گردی کا تعلق اسلام سے جوڑا جائے۔ اسلام کا دہشت گردی کے ساتھ کیا تعلق ہے؟۔ ان دنوں جب کرونا وائرس کی بھارتی قسم سامنے آئی، جس نے دنیا میں تباہی پھیلائی تو بھارتی عوام نے کہا کہ اس وائرس کو بھارتی قسم کہنے کی بجائے ڈیلٹا قسم کہا جائے۔ درست بات ہے کہ ایک وائرس کو کسی قوم کے ساتھ کیوں منسوب کیا جائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایسے ہی دہشت گردی کو کیوں کسی مذہب کے ساتھ منسوب کیا جائے۔ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کو اسلام سے جوڑنا اور پھر انتہا پسند اسلام کی بات کرنا ایسے ہے جیسے اسلام کی کوئی انتہا پسند قسم ہے جو دہشت گردی کو فروغ دیتی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ آپ کسی مذہب یا انسانی برادری کو اس کی انتہائوں کی بنیاد پر نہیں پرکھ سکتے۔ نائن الیون کے بعد جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا تھا تو لوگ اس امید سے دعا کرتے تھے کہ اس کے پیچھے کسی مسلمان کا ہاتھ نہ ہو کیونکہ ہر کسی پر شک کیا جاتا تھا۔ میں یہ کبھی بھی بھول نہیں سکتا کہ نائن الیون کے بعد مجھے ایک غیر ملکی صحافی نے فون پر کہا کہ آپ کو مسلمان ہونے پر شرم نہیں آتی۔ کیونکہ 19 جنونی لوگوں کے فعل کا ذمہ دار ایک ارب30 کروڑ افراد کو ٹھہرایا جا رہا تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ مجھے اس فون پر دھچکا لگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ مغرب میں لوگ انتہا پسند اسلام اور میانہ رو اسلام میں تفریق نہیں کرتے تو ایک عام آدمی کیسے کر سکتا ہے۔ اس لیے سارے مسلمان خاص طور پر جو بظاہر اپنے حلیے سے مسلمان نظر آتے ہیں جو اپنا سر ڈھانپتے یا داڑھی رکھتے ہیں وہ ہدف بن گئے، ان کی توہین کی گئی۔ میں ان لوگوں کی بات نہیں کر رہا ہوں جن پر تشدد کیا گیا یا جن کو قتل کر دیا گیا۔ میں عام لوگوں کی بات کر رہا ہوں جن کو مغربی ممالک میں گلیوں میں گالیاں دی گئیں۔ محض اس لیے کہ وہ حلیے سے مسلمان دکھائی دیتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں یہ انتہائی ناانصافی تھی۔ مسلمان ملکوں کی قیادت کو اس بارے میں بات کرنا چاہیے تھی اور انہیں اسلام کو دہشت گردی سے الگ کرنا چاہیے تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ دوسری بات جس کا آغاز سلمان رشدی کے ساتھ ہوا، مغرب کے لوگوں میں مذہب کا تصور وہ نہیں جو ہمارے ہاں ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھ سکتے جو محبت، عزت و احترام نبیﷺ کیلئے ہمارے دلوں میں ہے۔ لوگوں کے دلوں میں کسی بھی دوسری چیز کے مقابلے میں ان کیلئے بے پناہ محبت اور احترام ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ مغربی ملکوں میں مذہب کی کیا صورتحال ہے۔ میں جب برطانیہ گیا تو وہاں حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں برائن کی زندگی نامی مونٹی پائتھن فلائنگ سرکس چل رہا تھا‘ میں حیران رہ گیا۔ اگر آپ نبیﷺ کا تمسخر اڑائیں یا توہین کریں جیسا کہ سلمان رشدی نے کیا تھا، تو یہ مسلمانوں کیلئے انتہائی تکلیف دہ اور توہین آمیز بات ہے۔ جس طرح ہولوکاسٹ سے یہودی برادری کو دکھ پہنچتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ صدر میکرون کو اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ وہاں کی مسلمان برادری کے ساتھ کیسے چلنا ہے، جب تک وہ نہیں سمجھتے تو یہ بد نما سلسلہ جاری رہے گا پھر کوئی ہمارے پیغمبرﷺ کی توہین کرے گا۔ اس کا انتہائی رد عمل ہوگا اور اس کے نتیجے میں پرتشدد حملہ ہو سکتا ہے اور اس کے باعث فرانسیسی معاشرے میں شدید رد عمل آ سکتا ہے۔ ہمارے ہاں پاکستان میں توہین رسالت کا قانون ہے۔ یہ قانون برطانیہ نے بنایا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ وہ آئندہ ماہ برطانیہ میں ہونے والے ماحولیات کے حوالہ سے کانفرنس میں شرکت پر غور کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ انگلینڈ میں آج بھی یہ احساس پایا جاتا ہے کہ وہ پاکستان جیسے ممالک کے ساتھ کرکٹ کھیل کر ان پر احسان کر رہے ہیں۔ ایک وجہ تو بظاہر پیسہ ہے جو ایک اہم جزو ہے۔ پیسہ کھلاڑیوں اور کرکٹ بورڈ دونوں کیلئے اہم ہے۔ بھارتی کرکٹ بورڈ دنیا کا امیر ترین کرکٹ بورڈ ہے، اس وقت بھارت عالمی کرکٹ کو کنٹرول کرتا ہے ان کا جو جی چاہتا ہے وہ کہتے ہیں اور کسی میں اتنی جرات نہیں کہ وہ بھارت کیساتھ ایسا کرسکیں کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ بھارت میں کافی پیسہ ہے۔ علاوہ ازیں وزیراعظم عمران خان نے خصوصی اقتصادی زونز میں زمین کی فراہمی، بجلی اور گیس کے کنکشن کی دستیابی اور ٹیکس مراعات دینے کے حوالے سے ہر ممکن اقدامات یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔ پیر کو وزیراعظم کی زیرصدارت چینی سرمایہ کاروں کی سہولت کے حوالے سے اجلاس ہوا۔ وزیراعظم نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چینی سرمایہ کاروں کے تمام مسائل کو ایک چھت تلے حل کرنے کے لئے ان میں سے ہر ایک زون میں ایک موثر ون ونڈو آپریشن سہولت اور سی پیک اتھارٹی میں ایک سہولت مرکز قائم کیا جا رہا ہے۔ دریں اثناء وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ معدنیات کا شعبہ مجموعی معاشی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔ معدنیات کے شعبہ کی ترقی کے لئے لیگل فریم ورک کی تیاری کے لئے اقدامات کو تیز کرنے کی ضرورت ہے ۔ وزیراعظم آفس میڈیا ونگ کی جانب سے پیر کو جاری بیان کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت معدنیات کے شعبہ کی ترقی کے حوالے سے فریم ورک کی تیاری کے لئے ایک اعلی سطح کا اجلاس منعقد ہوا۔ اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ وفاق اور صوبوں کے مابین معدنیات کے شعبہ کی ترقی کے حوالے سے اقدامات کو مربوط بنانے کی ضرورت ہے۔ مزید براں وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ عشرہ رحمت للعالمین میں نوجوانوں اور بچوں کی شرکت کو یقینی بنایا جائے اور حضورؐ کے روزمرہ زندگی کے اصولوں کو اجاگر کیا جائے۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت عشرہ رحمت للعالمین اور بارہ ربیع الاول کے حوالے سے اجلاس ہوا۔ اجلاس میں وفاقی وزراء فواد چودھری‘ نور الحق قادری‘ معاونین خصوصی شہباز گل اور ارسلان خالد نے شرکت کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ آپؐ کی سیرت پوری انسانیت کیلئے مشعل راہ ہے۔