اُچیاںشاناں لہور دی یاں ، لہور لہور اے، جنے لاہور نہی ویکھایا او جماں نہی یہ وہ جملے ہیں جو لاہور کی پہچان ہیں ۔ لاہور اور بھیوجوہات کی بنا پر پہچانا جاتا ہے لیکن لاہور والوںکا ایک خاص طرزِ بیاں بھی لاہوریوں کو منفرد بناتا ہے مثلاً ’’ر‘‘ کو ’’ڑ‘‘ ،’’ڑ‘‘ کو ’’ر‘‘ میںبولتے ہیں۔ جس طرح چریا پُھڑ اُری پھڑ واپس نہ آئی،دیواڑ پڑ بیٹھی چریا کو پتھڑ ماڑا چریا کو وہ پتھڑ لگا اوڑ چریا اُر گئی۔اِسی طرح لاہور کا پُرانا حصہ یعنی اندرون شہر لاہور جو کہ ماضی میں بارہ دروازوں ،تیرویں موڑی اور دیوار کے حصار میں آباد تھا۔بارہ دروازوں کے علاوہ بھاٹی دروازے اور لوہاری دروازے کے درمیان دیوار میں ایک گزر گاہ بنانے کیلئے سوراخ کیا گیا تھا جس وجہ سے اِس مقام کو موری کا نام دیا گیا۔ وقت کے تھپڑ وں میں دیوار تو نہ رہی اور کچھ دروازے بھی صفحہ ہستی سے مِٹ گئے اور کچھ اپنی آن بان کے ساتھ دروازے اپنی حر مت کی شان کو لئے آج بھی کھڑے ہیں جبکہ کہ کشمیری دروازے اور شیراں والے دروازے کے درمیان قدیم دیوار کی مرمت کرکے اُسے محفوظ کر لیاگیا ہے ۔لاہور کے اِن دروازوں میں ایک دنیا آباد ہے۔ یہاں کے محلے ،کوچے ،بازار تنگ گلیاںاور گلیوں میں چھوٹے بڑے مکانات ،حویلیاں باہر سے آنے والوں کو وطیرہ حیرت میں ڈالتے ہیں کہ اُن تنگ گلیوں سے گزر کر مکانات میں آباد خاندان اور اُنکے سازوسامان بھی ایک حیرت کدہ کا منظر پیش کرتے ہیں یعنی اگر یہ کہا جائے کہ یہ ایک Puzzle Land ہے تو غلط نہ ہو گا کیونکہ اِسکی بھول بھلیوں میں راستے کہاں سے کہاں نکل جاتے ہیں ۔ اندرون شہر لاہور کی اِنہی تنگ گلیوں کے بارے میں مشتاق یوسفی کی ایک دلچسپ بات کوڈ کی جاتی ہے کہ یہاں کئی گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ اگر ایک وقت میں ایک مرد اور عورت اُس گلی میں بروقت آجائیں تو اُنکے درمیان صرف نکاح کی کسررہ جاتی ہے۔جس نے بھی یہ کہا اُس نے خوب یہ بات کہی لاہور پاکستان کا دل ہے اور اگر دل جوان ہو تو اُسکی زندگی میں رنگینیاں ہوتیں ہیں ، شوخیاں ہوتیں ہیں اور خوشیاں ہوتیں ہیں۔ اِن تما م لوازمات کو لاہور اور لاہور والے پورا کرتے نظر آتے ہیں۔ لاہور باغوں کا شہر ، لاہور میلے ٹھلوں کا شہر، لاہور زندگی سے بھرپور جینے والوں کاشہر۔لاہور کی طرزِ زندگی دو حصوں بلکہ اگر یہ کہا جائے تین حصوں میں بٹی نظر آتی ہے۔پہلی اندرونِ شہر لاہور،دوسرا حصہ انگریز دور کی تعمیرات (جس میں ہندؤوں کی آبادیاںاور انگریزوں کی بنائی ہوئی عمارات نے ایک انقلاب برپا کر دیا) اورتیسرا حصہ لاہور کی وہ دور دراز تک پھیلی نئی سوساٹیز جو کئی کلو میٹرزتک پھیل چکی ہیں۔
آج میرے کالم کا موضو ع اندرون شہر لاہور کی ثقافت اور سماجی زندگی گزارنے والوں کی زندگی کا احاطہ کرنا ہے۔ لاہور کا مزاج بھی نرالا ہے لاہوریئے اپنی تفریح کاموقع خود ہی کسی ناکسی طرح نکال ہی لیتے ہیں بس اِن کو ماحول چاہیے ہوتا ہے ۔ اندرونِ شہر لاہور کے بازاروں میں گہما گہمی ہر وقت رہتی ہے۔بزرگ ، جوان، عورتیں ،مرداور بچے اِسکے گلی کوچوں میںکسی ڈر خوف سے آزاد گھومتے پھرتے نظر آئینگے۔سب کی خوشیاں اور غم سانجے ہوتے ہیں۔
اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ لاہور میلے ، ٹھلوں اور تہواروں کا شہر ہوا کرتا تھا مگر زندگی میں آگے بڑھ جانے کی افراتفری نے بہت سے میلے اور تہوار وں کو محدود کر دیا ۔ یوں تو کئی ایک تہوار ایسے تھے جو قیام پاکستان کے بعد ہندؤوں اور سکھوں کے ساتھ ہی رخصت ہو گئے جبکہ بسنت کا تہوار لاہور میںموسمِ بہار کی آمد پر منایا جاتا تھا گو کہ بسنت کی مخالفت کرنیوالے اِس کو ہندؤوں کا تہوار ہونے کی وجہ سے تنقید بھی کرتے تھے مگر لاہوریئے اِسے خوب پُرجوش طریقے سے مناتے تھے ۔بسنت کا تہوار اپنی پوری آب و تاب سے ماضی قریب تک جاری رہا جو کہ آخر میں قاتل تہوار بن گیا جس کیوجہ سے بہت سے لوگ دوڑ پھرنے(کیمیکل ڈور) سے آوارہ اموات کا شکار ہونے لگے جس پر کورٹ کے فیصلے پر اِس تہوار پر پابندی لگانی پڑی۔
گو کہ اب لاہور کی تفریحات محدود ہو گئی ہیں مگر کسی نا کسی طور کوئی میلہ ،تہوار سج ہی جاتا ہے۔ اندرون لاہور جسے پرانا لاہور بھی کہتے ہیںکی ثقافت و تمدن کو محفوظ اور خوبصورت بنانے میں والڈ سٹی اتھارٹی لاہور کی کاوششوںاگر ذکر نہ کیا جائے تو ناانصافی ہو گی۔
ویکھ اندرون لاہور یہ بینرز دہلی دروازے کے باہرلگے دیکھے یعنی والڈ سٹی اتھارٹی لاہور کے تحت ہفتہ کلچرل واکنگ ٹور منانے کا پروگرام بنایا گیا ۔جس میں اندرون شہر لاہور دیکھنے آنیوالے سیاحوں کوپُرانے لاہور کی تہذیب و ثقافت و تمدن دکھانے کا اہتمام کیا گیا۔جس کے تحت اِس ثقافتی واک میں دہلی دروازے سے مسجد وزیر خان کے درمیان کے علاقے کو دکھانے کا اہتمام کیا گیا جس میں شاہی حمام ، گلی سونجان ، ملحقہ گلیاں (جن کی تزئین و آرائش کی گئیں ہیں)،بازار ، رنگیلا رکشہ کی سیر،ثقافتی پرفارمنس اور روایتی ریفرشمنٹ سے آنے والوںکی تواضع کا پروگرام بنایا گیا۔