آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک ہر وقت باعث ِ خیر و برکت اور موجبِ نزول ِ رحمت ِ خدا وندی ہے، کلام ِ پاک میں ارشاد ہوا کہ ’’ وَارَفَعنَا لَکَ ذِکرَکَ ‘‘ اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکربلند فرما دیا ۔سورۃ الانشرح آیت ،۴۔ حضرت آدم علیہ السلام جنت سے نکالے گئے، عمر بھر استغفار کرتے رہے ، ایک دن دعا کی کہ اے میرے رب مجھے معاف کردے اور میری توبہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو سب سے آخری نبی تشریف لانے والے ہیں ان کے صدقے اور وسیلے سے معاف کردے ، رحمتِ خدا وندی جوش میں آئی پوچھا اے آدم ؑ توبہ بھی قبول کر لوں گا اور معاف بھی کر دوں گا ، لیکن یہ بتا تمہیں میرے اس محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر کیسے ہوئی ؟ تو حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا باری تعالیٰ جب تو نے مجھے پیدا کیا اور جنت میں رکھا تو میں نے اپنا سر اٹھا کر جنت کو دیکھا تو میں نے عرش کے ہر پائے پر اور جنت کے ہر درخت ،ہر ایک پتے پر اور جنت کے ہر دروازے پر لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ لکھا دیکھا تھا،اور میں اسی دن سمجھ گیا تھا یہ کوئی اللہ کا بڑا ہی محبوب ہے جس کا جنت کے ایک ایک پتے پر نام ہے ، اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نام کے ساتھ جوڑ کر لکھ رکھا ہے ۔
نزول قرآن اور دنیا میں آمد سے پہلے ،شانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے کہ ان کا ذکر اُس عالم سے اِس عالم تک محیط کر دیا گیاذکر کا احاطہ کر دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر کا گھیرا دونوں عالم کے گرد قائم کر دیا، جن کی زمین پر ابھی آمد بھی نہیں ہوئی تھی ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رب ِ کائنات نے دونوں جہانوں کے لئے رحمت اللعالمین بنا کربھیجا ، آپ خیرالوریٰ ، بدرالدجیٰ ، نور الھدیٰ، نجم الھدیٰ، نورالعلیٰ، جلوہء حق نما ،کشف الدجیٰ ، محمد مصطفیٰ ﷺ ختم الرسل ، سراپا رحمتِ کبریا ، مزمل ، مدثر،متین، امام المتقین ، کاشف الکرب ، خلیل الرحمن ، صادق، امین ، حبیب اللہ جن کے لئے رب باری تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا ، کہ ’’بیشک اللہ اور اس کے (سب) فرشتے نبی(مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں ، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو ، سورۃ الاحزاب ، آیت 56 ، جب اللہ اور اس کے فرشتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے رہتے ہیں تو اُمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھتے بیٹھتے درود سلام کا ورد کرتے رہنا چاہئے۔یہی حد ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عروج کی ۔
چودہ صدیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا لیکن آج بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم ہستی کے پردہء عالم پر ظہور کا دن آتا ہے تو اُمتِ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مسرت کی ایک پُر جوش لہر اُمڈ آتی ہے، ماہ ِ ربیع الاول کامقدس دن ِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اُمت کے لئے بے پناہ خوشیوں اور مسرتوں کی نوید سے طلوع ہوتا ہے،اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متوالے اس دن کو جوش وخروش اور اسلامی جذبے سے مناتے ہیں جو کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت کی علامت ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’ اور انہیں اللہ کے دن یاد دلائو ، سورۃ ابراہیم ،آیت ۔5 ، امام المفسرین عبداللہ بن عباس ؓ کے نزدیک ایام اللہ سے مراد وہ دن ہیں جن میں اللہ سبحان تعالیٰ کی کسی نعمت کا نزول ہوا ہو ، لہذا ان ایام میں سب سے بڑی نعمت کا دن محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت اور ان کی معراج کے دن ہیں ، ( تفسیر خزائن العرفان )آپ ﷺ سراپارحمتِ کبریا نبی آخر الزماں انسان کامل ہادیء عالم اور وجہ تخلیقِ کائنات ہونے کے ناطے نوع انسان کی بھلائی اور مغفرت کی بشارت دینے والے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کائنات کو حسن و جمال کی جلوہ آرائیوں سے مرقع بنایا ، مظاہرکائنات کی اصل روح اور نور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کو انسان اپنے دائرہ عمل میں لائے تو اپنی دنیا اور آخرت کوسنوار سکتا ہے ۔