’’تکبر کا سر ہمیشہ نیچے رہتا ہے۔‘‘ یہ دین کا فرمان ہے۔ احادیث میں بھی اس کا ذکر آیا ہے۔ عملی طور پر بھی غرور ہمیشہ ہارا اور عاجزی جیتی ہے۔ آج کے ہمارے کالم کا موضوع بھی یہی ہے تاکہ آسان پیرائے میں آپ تک یہ بات پہنچا سکیں کہ غرور کا سر ہمیشہ ہی نیچے رہتا ہے۔ خدا کو بھی غرور پسند نہیں، اس سے بچنا چاہیے۔
غرور کی آسان تعریف یہ ہے: اپنی طاقت، دولت اور عہدے کی وجہ سے خود کو دوسروں سے افضل سمجھنا، دوسروں کو خود سے کمتر اور حقیر جاننا، یا خود کو اپنی طاقت، دولت یا بڑے عہدے کے زعم میں ’’خدا‘‘ سمجھ لینا (نعوذ باللہ)۔ پھر یہ سمجھ لینا کہ کوئی اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ یہ سب باتیں غرور کی علامت ہیں۔
ہم اس بات کو اس طرح بھی بیان کر سکتے ہیں کہ غرور ایک ایسی انسانی حالت کا نام ہے جس میں انسان خود کو دوسروں سے افضل سمجھتا ہے اور اپنے آپ کو دوسروں پر فوقیت اور فضیلت دیتا ہے۔ جبکہ اللہ تبارک تعالیٰ غرور اور تکبر کرنے والے کو سب سے زیادہ ناپسند فرماتا ہے۔
غرور جیسا بدترین گناہ سب سے پہلے اُس وقت ابلیس نے کیاجب اللہ تعالیٰ نے تمام فرشتوں کو حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا، لیکن ابلیس نے یہ کہہ کر سجدہ کرنے سے انکار کر دیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے بنایا گیا ہے جبکہ میں آگ سے بنا ہوں۔ ابلیس (شیطان) کے اس غرور کو اللہ تبارک تعالیٰ نے سخت ناپسند کیا اور اُسے قیامت تک کی مہلت دے کر اپنی بارگاہ سے نکال دیا۔
لوگ اپنی طاقت، دولت اور عہدے کے نشے یا گھمنڈ میں اپنے اندر اِس قدر غرور اور تکبر پیدا کر لیتے ہیں کہ خود کو ’’خدا‘‘ سمجھنے لگتے ہیں۔دنیا میں اس کی مثالیں نمرود، شداد اور فرعون سے دی جا سکتی ہیں جو اپنی دولت اور طاقت کے گھمنڈ میں اس قدر غرور میں مبتلا ہو گئے کہ خود کو نااعوذ باللہ خدا کہلوانے لگے۔ انہوں نے لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دئیے۔ اُن کا ظلم اور غرور دیکھ کر پھر خدا کی خدائی جوش میں آئی اور اُس نے اُن کا نام و نشان تک مٹا دیا۔ دنیا کے لیے وہ عبرت کا نشان بن گئے۔
یہ جان لیجیے ، بڑائی صرف اللہ کے لیے ہے۔ اللہ ایسے بندوں کو پسند کرتا ہے جن میں عاجزی او ر انکساری ہوتی ہے۔ وہ انسان کو غرور جیسے کبیرہ گناہ کی بالکل بھی اجازت نہیں دیتا۔
غرور کی بہت سی شکلیں ہیں۔ وہ صرف اظہار ہی سے نہیں اور بھی کئی چیزوں سے ظاہر ہوتا ہے جیسے کسی کے پاس دولت آ جائے یا کوئی اعلیٰ منصب۔ وہ خود کو برتر اور دوسروں کو کمتر سمجھنا شروع کر دیتاہے۔ اُس میں عاجزی اور انکساری نہیں رہتی۔ اُس کے لہجے، چال ڈھال اور رہن سہن میں نمایاں طور پر تکبر نظر آنے لگتا ہے۔ دوسرے اُس کی نظر میں حقیر ہو جاتے ہیں۔ وہ کمزروںپر ظلم و ستم سے بھی گریز نہیں کرتا۔
’’خود کو افضل اور دوسروں کو حقیر جاننے کا نام ہی تکبر ہے‘‘۔
تکبر کی کئی قسمیں ہیں۔ تکبر کا ایک سبب علم بھی ہے۔ بعض اوقات انسان کثرتِ علم کی وجہ سے بھی تکبر کے مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ ابلیس (شیطان) کے انجام کو یاد رکھے۔
تکبر کا دوسرا سبب عبادت و ریاضت بھی ہے۔ جب بندہ کثرت سے عبادت و ریاضت میں پڑ جاتا ہے تو یہ سمجھنے لگتا ہے کہ میں بہت زیادہ عبادت گزار ہو گیا ہوں اور اس میں صرف میرا کمال ہے جبکہ عبادت تو وہی قبول ہو گی جس میں نیت درست اورعبادت کی تمام تر شرائط پائی جاتی ہوں گی۔ ہر بندہ عبادت کے وقت یوں ڈرے کہ کیا خبر یہ عبادت جس پر میں اتنا گھمنڈ کر رہا ہوں اللہ کی بارگاہ میں قبول بھی ہوئی ہے یا نہیں؟ ایسا نہ ہو کہ یہ تکبر جنت میں داخلے کی بجائے اُس کے لیے جہنم کا سبب بن جائے۔
تکبر کا تیسرا سبب مال و دولت ہے۔ جس کے پاس کار، بنگلہ، نوکر چاکر اور لمبا چوڑا بینک بیلنس ہو، وہ بھی بسا اوقات تکبر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس کا علاج صرف یہ ہے کہ بندہ اس بات کا یقین رکھے کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ اسے یہ سب کچھ یہیں چھوڑ کر خالی ہاتھ دنیا سے جانا پڑے گا۔ کفن میں کوئی تھیلی ہو گی نہ قبر میں تجوری۔ اگر قبر کو کوئی چیز روشن کرے گی تو وہ آپ کے نیک اعمال ہوں گے۔
تکبر کا چوتھا سبب قرآن مجید نے حسب نسب کو قرار دیا ہے۔ بندہ اپنے آبائو اجداد کے بل بوتے پر اکڑتا اور دوسروں کو حقیر جانتا ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ یہ ذہن بنائے کہ آبائو اجداد کے کارناموں پر گھمنڈ عقلمندی نہیں، بلکہ جہالت ہے۔
تکبر کا پانچواں سبب عہدہ و منصب ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ یہ ذہن بنا لے کہ آج جس منصب پر وہ اکڑتا یا غرور کرتا ہے کل کو وہ چھن جانا ہے۔ لہٰذا اکڑ کیسی غرور کیسا؟
اپنے اردگرد دیکھیں تو بہت سے ایسے واقعات دیکھنے کو ملیں گے کہ 21ویں صدی میں داخل ہونے کے باوجود بھی ہم اب تک اونچ نیچ کے مہیب سلسلوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں اب بھی وڈیرہ شاہی ہیں۔ یہاں کے وڈیرے اپنے مزارعوں اور گوٹھوں میں رہنے والے غریب اور کمزور افراد پر ہر طرح کا حکم چلاتے اور ظلم ڈھاتے ہیں۔
افسر شاہی کا بھی یہی حال ہے۔ بڑے افسر اپنے حسب نسب کے نشے میں چُور اپنے سے کمتروں کو انسان ہی نہیں سمجھتے۔ مال و دولت رکھنے والوں کا بھی یہی حال ہے۔ ہم اگر قرآن کا فلسفہ جان لیں۔ دین کے پیغام پر عمل کریں تو غرور جیسی لعنت سے بچ سکتے ہیں اور اس سے بچنا ہمیں جہنم کی آگ سے بچا سکتا ہے۔
قرآن تکبر کے متعلق کیا کہتا ہے؟
Oct 12, 2022