چند روز قبل وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے تجویز پیش کی ہے کہ قوم کو میثاق معیشت کرنا چاہئے اور تمام سیاسی پارٹیاں کم از کم اس ایک نکتے پر متفق ہوں کہ معیشت پر سیاست نہیں کی جائے گی ۔میثاق معیشت کی تجویز سب سے پہلے شہباز شریف صاحب نے اس وقت پیش کی تھی جب موجودہ پارلیمنٹ کے افتتاحی اجلاس میں انہوں نے اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے اپنا خطاب کیا ۔انہوں نے عمران حکومت کو کھلے دل سے پیشکش کی تھی کہ اپوزیشن میثاق معیشت کے لیے دلی طور پر تیار ہے ۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت نے اس تجویز کو ہوا میں اڑا دیا اور شہباز شریف کی تجویز کو ٹھکرا دیا گیا ۔میثاق معیشت کی تجویز کے پیچھے وہ میثاق جمہوریت ہے جس پر لندن میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے دستخط کئے تھے اور یہ عہد کیا تھا کہ وہ آئندہ ایک دوسرے کے مقابل صف آرا نہیں ہوں گے اور بلیم گیم کا خاتمہ کیاجائے گا ۔
یہی میثاق جمہوریت آج کی اتحادی حکومت کی بنیاد ثابت ہوا ہے ۔ نہ صرف پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ایک دوسرے کے ساتھ چلتی نظر آ رہی ہیں بلکہ ملک کی دیگر درجن بھر چھوٹی بڑی پارٹیاں بھی قومی مفاد کے تحت ایک پلیٹ فارم پر جمع ہیں ۔وزیر اعظم کے طور پر شہباز شریف میثاق معیشت کی اپنی تجویز کا اعادہ کر چکے ہیں ۔اب ایک مرتبہ پھر پی ٹی آئی نے بطوراپوزیشن بھی اس تجویز پر توجہ نہیں دی ۔حالانکہ ملک میں معیشت کی حالت سخت دگر گوں ہے ،خود پی ٹی آئی کے دور حکومت میں کرونا وائرس نے ملکی معیشت کو زیر و زبر کر دیا ۔مہنگائی انتہائی بلندیوں کو چھو رہی ہے ۔عام آدمی مہنگائی کے ہاتھوں نالاں ہے ،بجلی کے بل بجلی بن کر لوگوں پر گرتے ہیں ،پٹرول کی قیمتوں نے لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے ، پی ٹی آئی کے دور حکومت میںپٹرول کے نرخ رات کے بارہ بجے بڑھا دیئے جاتے تھے، جس کی وجہ سے ہر شعبے میں مہنگائی نے ڈیرے ڈال لئے ۔ہر قسم کی ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ ہوا ۔کھیت سے منڈی تک پہنچے والی اجناس مہنگی ہو گئیں،فیکٹریوں کی مصنوعات پر بھی پٹرولیم اور توانائی کے نرخوں میں اضافے نے منفی اثر ڈالا اور ہماری برآمدات عالمی مارکیٹوں میں مقابلے میں نہ ٹھہر سکیں ،جبکہ درآمدات کے بل میںہوش رُبا اضافہ ہوتا چلا گیا ۔جس سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو بڑھا ۔ڈالر کے مقابلے میں ملکی کرنسی تیزی سے گرنے لگی اور ڈالر نے اونچی اڑان بھر لی۔ڈالر کے فیکٹر نے بھی ہر چیز کے نرخ بڑھا دیئے اور مہنگائی کے عفریت نے لوگوں کا گلا دبوچ لیا ۔
یہ درست ہے کہ ہر ملک مہنگائی کے ہاتھوں تنگ ہے لیکن باقی دنیا ہوش مندی سے مہنگائی کا مقابلہ کررہی ہے ۔جبکہ ہمارے ہاں عمران خان مہنگائی پربھی اپنی سیاست چمکانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔انہیں کوئی فکر لاحق نہیں ہے کہ ملکی معیشت، سیلاب کے ہاتھوں لرزہ براندام ہے ۔تین کروڑ سے زائد لوگ بے گھر ہو چکے ہیں ،ان کے پاس کچھ کھانے کوہے نہ کچھ پینے کو ۔ اوپر سے بیماریاں ٹپک پڑی ہیں جن کا علاج معالجہ میسر نہیں ہے ۔یہ حالات اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ پوری قوم متحد ہو کر سیلاب زدگان کی بحالی کے عمل میں شریک ہو لیکن عمران خان فوری الیکشن کی رٹ لگا رہے ہیں ،ان کا خیال یہ ہے کہ فوری الیکشن ہو جائے یا الیکشن کی کسی تاریخ کا اعلان ہو جائے تو مہنگائی بھی ختم ہو جائے گی اور سیلاب زدگان کے مسائل کا بھی خاتمہ عمل میں آجائے گا ۔عمران خان سے کوئی پوچھے کہ فوری الیکشن امرت دھارا کیسے ہوں گے ۔1970ء میں بھی ایک الیکشن ہوا تھا جس نے ملک کو دولخت کردیا ،کون جانتا ہے کہ آج اگر نئے الیکشن ہوجائیں، اس کے نتائج کو کوئی مانتا بھی ہے یا نہیں ۔اس بے یقینی کے ماحول میں ملک انتشار کا شکار ہو جائے گا اور لوگوں کے ہاتھ پائوں پھول جائیں گے ۔
کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ اس وقت ہر کوئی ہوش کے ناخن لے اور قوم جس بحران سے دوچار ہے ،اس سے نکلنے کیلئے مل جل کر ہاتھ پائوں مارے جائیں ۔وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی یہ تجویز بر محل ہے کہ فوری طور پر میثاقِ معیشت کے لیے سر جوڑ کر بیٹھا جائے ۔میں تو یہ کہتا ہوں کہ اگر پی ٹی آئی اس کے لئے تعاون پر آمادہ نہیں ہوتی تو اتحادی حکومت کو چاہئے کہ وہ کم از کم خود تو 13 پارٹیوں پر مشتمل ہے ،اگر یہ ساری پارٹیاں ہی میثاق معیشت پر غورو خوض کے لئے آمادہ ہو جائیں ،جو کہ انہیں ہو جانا چاہئے ، انہیں حکومت سے باہر جماعت اسلامی سے بھی تعاون مانگنا چاہئے ،جے یو پی سے بھی ہاتھ ملایا جائے اور ملک کی دیگر چھوٹی بڑی پارٹیوں کو بھی میثاق معیشت کے لیے آمادہ کیا جائے ۔
حقیقت یہ ہے کہ معیشت کے معاملات پر اتفاق ہو جائے تو ہمارا قبلہ درست ہو جائے گا ،ساری دنیا طویل مدت کی منصوبہ بندی پر عمل کرتی ہے مگر ہم ایڈ ہاک اور ڈنگ ٹپائو فیصلے کرتے ہیں اور لمحہ بہ لمحہ کی صورتحال پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں ۔بانی پاکستان قائد اعظمؒ نے بھی آزادی سے قبل ایسی کمیٹیا ں تشکیل دی تھیں جن کو یہ فرائض سونپے گئے کہ وہ پندرہ سال کی منصوبہ بندی کریں اور ملک کیلئے تین،’’5 سالہ منصوبے ‘‘تیار کریں ۔تاکہ حکومتیں آتی جاتی رہیں مگر معیشت کا پہیہ چلتا رہے ۔بلاشبہ وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کی تجویز کے پیچھے یہی جذبہ کار فرما نظرآتا ہے ۔انہیں چاہئے کہ جتنی سیاسی پارٹیاں بھی دستیاب ہوں ،ان کے ساتھ مل بیٹھ کر معیشت کا چارٹر تیار کرلیں اور اللہ کا نام لے کر اس کو روبہ عمل میں لائیں ۔یقین مانئے کہ میثاق معیشت وقت کی اوّلین ضرورت ہے ۔