اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان خبروں کا سخت نوٹس لیا ہے کہ ٹی وی سے انٹرویو کے دوران ان کے "سائفر " کے حوالے سے بیان کو مکمل طور سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔ اپنے انٹرویو میں صدر مملکت نے واضح طور پر کہا تھا کہ انہیں سازش کے بارے میں شبہ ہے تاہم اس کا حتمی فیصلہ مکمل تحقیقات کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھنے سے لیکر اب تک ان کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور اس خط میں انہوں نے سپریم کورٹ سے معاملے کی مکمل انکوائری کرنے کی درخواست کی تھی کیونکہ انہیں پختہ یقین ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ صدر مملکت نے اس معاملے کو سپریم کورٹ میں اس لیے نہیں بھیجا تھا کہ انہیں سازش کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں تھا، بلکہ اس لیے کہ یہ معاملہ ملک کے سابق وزیر اعظم کی جانب سے اٹھایا گیا تھا، لہٰذا، تمام دستیاب واقعاتی شواہد سمیت پورے معاملے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ سائفر کے قومی سطح پر اثرات ہوئے اور ان کے باعث سیاسی ہلچل پیدا ہوئی۔ اس لیے انہوں نے سپریم کورٹ سے حکومت پاکستان کی طرف سے جاری کردہ ڈیمارش سے ہٹ کر بھی غیر جانبدارانہ انکوائری کی درخواست کی۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ صدر مملکت کے الفاظ کو ایک انتہائی سنجیدہ معاملے پر توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا جس سے سنگین مضمرات ہوئے۔ صدر مملکت پارلیمنٹ میں اور اس کے علاوہ بھی متعدد مرتبہ 'سیاق و سباق سے ہٹ کر' تصویر کشی کے مضمرات کے بارے میں بات کر چکے ہیں اور سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیے گئے بیانات پہلے سے ہی تقسیم شدہ ماحول میں مزید خلیج پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔