کچھ دنوں پہلے روس کے دفاعی اہل کاروں کا کہنا ہے کہ یوکرائن میں باغیوں کے خلاف فوجی کاروائی کے دوران امریکہ کی جراثیم پیدا کرنی والی لیبارٹریاں پکڑی گئی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ لیبارٹریاں امریکی یوکرائن میں خطرناک جراثیم اور بیماریوں کو پھیلانے اور روسی فوج کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ لیبارٹریاں براہ راست امریکی پینٹا گون اور امریکی فوج کے زیر نگرانی کا م کرتی تھی۔ چین اور روس نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ یوکرائن اور دنیا کے دوسرے مختلف ممالک میں 3500 کے قریب جراثیم پیدا کرنے والے اورحیاتیاتی لیبارٹریوںکے بارے میں ہمیں آگاہ کریں۔روسی ترجمان زیاسکا روف کا کہنا ہے کہ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ عالمی برادری امریکہ سے اس قسم کے تباہ کن جراثیمی اور مہلک اور انسان دشمن لیبا رٹریوں کے بارے پوچھیں۔ روس کا کہنا ہے کہ 24 فروری کو یوکرائن پر حملہ سے پہلے امریکہ نے یوکرائن کو کہہ دیا تھا کہ وہ یوکرائن میں 30 سے زائد مہلک جراثیم پیدا کرنے والے زہریلے لیبارٹریوں اور انکے ریکارڈ کو ضا ئع کردیں تاکہ یہ روس کے ہاتھ نہ آئیں۔ انکی ہدایات پرعمل کرتے ہوئے یوکرائنی حکام نے پوری لیبا رٹریاںاور ریکارڈ تلف کیا۔ ماضی قریب میں امریکہ کے اس قسم کی جراثیمی مہلک مواد تباہ کرنے والے لیبارٹیوں کے خلاف دنیاکے طول وعرض میں کئی مظاہرے بھی ہوئے ۔ آجکل روس اور چین کورونا وائرس کے سلسلے میں امریکہ کی اس لیبارٹریوں کی لنک کا اندازہ اور جائزہ لے رہے ہیں۔اگر ہم غور کریں تو اس وقت دنیا میں جو بیماریاں پھیل رہی ہیں اس میں ان مہلک اور خطرناک جراثیمی لیبارٹریوں کا کر دار ہے۔ اگر ہم امریکہ کے ان جراثیمی لیبا رٹریوں کو کورونا وبائی مرض کے ساتھ کڑیاں ملائیں، تو ہمیں آسانی سے اندازہ کرسکتے ہیںکہ کورونا جیسی مہلک وبا، جس سے لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن گئے اور دنیا کی معیشت کو ٹریلینز ڈالر کا نقصان ہوا۔ موجودہ پراگریس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کورونا وبا میں امریکہ کی ان جراثیمی مہلک لیبا رٹریوں اچھا خا صا کر دار ہوگا ۔ اور یہی وجہ ہے کہ جاپان کے 2018 کے نوبل انعام یافتہ ماہر طبعیات اور مدافعتی نظام پر کام کرنے والے سائنس دان ڈاکٹر سوکو ہون کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس قدرتی اور فطری نہیں تھا ۔ بلکہ انسانوں کا پیدا کردہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ قدرتی وائرس ہوتا تو ایک وقت میں دنیا کے ایک حصے میں پھیلتا یہ بیک وقت تمام دنیا کو متاثر نہ کرتا اور نہ پو ری دنیا میںیہ وائرس بیک وقت پھیلتا۔ کیونکہ دنیا کا درجہ حرارت مختلف خطوں اور علاقوں میں ایک وقت میں ایک جیسا نہیں ہوتا۔ ا گر ایک طرف سوئزر لینڈ جیسے ٹھنڈے ملک کادرجہ حرارت منفی ہوتا ہے تو دوسری طر ف افریقہ جیسے ممالک کا درجہ حرارت انتہائی زیادہ گرم ہوتا ہے ۔اور یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی وائرس ،جس میں کورونا بھی شامل ہے اس کو دنیا کے مختلف ممالک اور بر اعظموں میں ایک وقت میں نہیں پھیلنا چاہئے ۔ کیونکہ وائرس اور جراثیم بیک وقت ٹھنڈے اور گرم علاقوں میں یکساںپرورش نہیں پاتے ۔انہوں نے مزید کہا کہ میں وائرس اور جراثیمی مواد پر وسیع تجربہ رکھتا ہوں ۔ میںپورے وثوق سے کہتا ہوں کہ کورونا وائرس قدرتی اور فطری نہیں تھا۔ اب اگر جاپان اس نوبل انعام یافتہ سائنس دان کے بیان کا تجزیہ کیا جائے تو اس سے یہ تاثر لیا جا سکتا ہے کہ کورونا وائرس اور وبا قدرتی اور فظری نہیں تھا بلکہ انسانوں کا پیدا کردہ تھا۔اب سوال یہ ہے کہ امریکہ دیگرپوشیدہ طاقتیں یہ کیوں کرنا چاہتی ہیں ۔ اس قسم کے بیماریاں پھیلانے سے ایک طرف ملٹی نیشنل کپنیوں کی ادویات بکے گی اورساتھ ساتھ مختلف ٹسٹ بھی کرانے پڑیں گے جس سے ادیات سازی کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اربوں ڈالر فائدہ ہوگا۔ آکس فام کے مطابق دنیا کے ملٹی نیشنل کمپنیوں جس میںPfizer, Bion Tech, Moderna نے ایک سال میں کورونا ویکسین سے 35ارب ڈ الر کا منا فع ہوا۔علاوہ ازیں بل گیٹس اور پوشیدہ طاقتوں کی خواہش ہے کہ دنیا کی آبادی مختلف جراثیمی بیماریوں کے ذریعے کم کی جائے تاکہ اسرائیل جو مستقبل کا سپر طاقت بننا چاہتا ہے وہ دنیا پر اپنی خواہش کے مطابق قابو کرلیں ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی سطح پر امریکہ اور اس قسم کے دوسرے ممالک کے خلاف تحقیقا ت ہونی چاہئے جو اس قسم کے جراثیم کو انسانوں کی تباہی اور بر بادی کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ اس سے ایک طرف اگر انکی ادویات کا تجارت پورے عروج پر ہے تو دوسری طرف پوری دنیا میں کو رونا کے جو ٹسٹ کئے جاتے ہیں اس سے وہ کاروبار بھی پورا عروج پر ہے۔ جہاں تک کورونا اور اس قسم کی دوسری جراثیمی بیماریاں ہیں ان پر پوری پو ری تحقیق ہونی چاہئے کہ اس قسم کی متعدی بیماریاں کیسی اور کس طرح پھیلتی ہیں ۔ کیونکہ اس پو ری دنیا کے ساتھ جو گھنائونا کھیل کھیلا جارہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ پاکستان میں قومی ادارہ برائے صحت اسلام آباد کو اس قسم کے جراثیمی اور حیاتیاتی بیماریوں کی روک تھام کے لئے سٹیٹ آف دی آرٹ مراکز کھولنے چاہئے تاکہ اس قسم کی بیماریوں پر تشخیص اور تحقیق کی جاسکے۔
آئندہ جنگوں کی پیش گوئی ؟
Oct 12, 2022