قیام پاکستان کے مقاصد اور نسلِ نو 

 27 رمضان المبارک کو  مملکت خداداد پاکستان کا قیام نہ صرف اللہ تعالی کی جانب سے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لئے نایاب تحفہ تھا بلکہ تمام عالم اسلام کے لیے معجزہ بھی تھا۔ اس امر میں بھی کوئی شک نہیں کہ انگریزوں کے آجانے کے بعد مسلمانوں پر زمین اس قدر تنگ کرنے کی کوشش کی گئی کہ پورے ہندوستان کے مسلمان یہ سمجھ گئے کہ مخالف قوتیں خاص کر ہندو انھیں ہر ممکن طریقے سے غلام بنانے اور دین اسلام کو خیرباد کرنے پر مصر ہیں اور اس کی وجہ ان حالات و واقعات کا تسلسل تھا جو کہ مسلمانوں کے ساتھ جاری تھے مثلا بنکم چیٹرجی نے بندے ماترم کا ترانہ اس تصور کے ساتھ پیش کیا کہ بھارت ماتا! ہم تیرے بندے ہیں۔
یہ ترانہ قیام پاکستان کے بعد بھی مسلمان بچوں کو پڑھنے پر مجبور کیا جاتا رہا۔ اسی طرح برہمو سماج کے نام سے  ادارہ قائم کیا گیا جو اکبر بادشاہ کے دین الہی کا دوسرا رخ کہا جاسکتا تھا۔ رام موہن رائے نے بھی اسی طرز پر ایک ادارے کی مجلس ایزدی کے نام سے داغ بیل ڈالی۔ اس کے بعد دیانند سرسوتی نے آریہ سماج کی پرتشدد تحریک شروع کی، جس میں کھل کر کہا گیا کہ ہندوستان صرف ہندوں کا ہے۔ یہاں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں لہذا مسلمان یا تو ہندو بن جائیں یا پھر ہجرت کرکے چلے جائیں۔ اسی تحریک کے تحت آر ایس ایس بنائی گئی جو انتہا پسند ہندو جماعت تھی۔ شدھی کی تحریک شروع کی گئی جس کا مقصد مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانا بتایا گیا۔ اس تحریک سے میوات کے علاقے میں مسلمانوں کو تیزی کے ساتھ ہندو مذہب قبول کرایا گیا۔ پھر سنگھٹن تحریک کے ذریعے تمام ہندوں کو جمع کیا جانے لگا۔
اس پس منظر میں مسلمان اکابرین کو ہی نہیں عام مسلمانوں کو بھی شدت سے احساس ہونے لگا کہ ہندو مسلم بھائی بھائی کے نعرے درحقیقت ظاہرا ہیں عملا کچھ اور ہے۔ اس بات کا اندازہ بہت پہلے سرسید احمد خان کو تو ہو ہی گیا تھا مگر علامہ اقبال جیسے شاعر و مفکر رہنما کو بھی جلد احساس ہوگیا، چنانچہ انھوں نے اپنی اس کہی ہوئی بات :
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی وہ گلستاں ہمارا
اسکی نفی خود ان اشعار کے ساتھ کردی :
سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے
تیرے صنم کدوں کے بت ہوگئے پرانے
پتھر کی مورتوں میں سمجھتا ہے تو خدا ہے
خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
ہمارے ہاں آج بہت سے لوگ رائے دیتے ہیں کہ تحریک کے رہنمائوں کا مقصد پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بنانے کا نہیں تھا بلکہ مسلمانوں  کے لئے صرف ایک خطہ زمین حاصل کرنا تھا تاریخی حقائق کو جھٹلانے اور قوم کے نونہالوں کو گمراہ کرنے کے مترادف  ہے-شاعر مشرق علامہ  اقبال نے جب  برصغیر کے حالات کا مشاہدہ کیا اور ہندوں کی مختلف تحریکوں مثلا سنگھٹن تحریک کو دیکھا تو کھل کر کہا:
ان تازہ خداں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
یہ بت کہ تراشیدہ تہذیب نوی ہے
غارت گر کاشانہ دین نبوی ہے
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے
نظارہ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملادے
ارض پاک میں بہت سے دانش ور یہ دلیل دیتے ہیں کہ ملک میں اسلامی نظام لانے کی بات خوامخوا کی جاتی ہے، قائد اعظم اور علامہ اقبال ایک روشن خیال شخصیت کے مالک تھے۔بے شک ہمارے اکابرین روشن خیال تھے لیکن ان کی یہ روشن خیالی دائرہ اسلام کے اندر تھی۔ ان کے کہے گئے الفاظ آج بھی ریکارڈ پر موجود ہیں جو ان کے علیحدہ وطن کے قیام کے تصور کو نہایت واضح کرتے ہیں، مثلا علامہ اقبال نے جب علیحدہ وطن کی بات پیش کی تو وہ کچھ ان الفاظ میں تھی۔
میں ہندوستان اور اسلام کے بہترین مفاد میں  الگ مسلم ریاست کے بنانے کا مطالبہ کرتا ہوں۔ اسلام کے لیے یہ ایک موقع ہوگا کہ عرب ملوکیت کے تحت اس پر جو پردے پڑ گئے تھے ان سے چھٹکارا حاصل کرسکے اور اپنے قوانین، تعلیمات اور ثقافت کو اپنی اصل روح کے ساتھ روح عصر سے ہم آہنگ کرسکے۔قائداعظم، علامہ اقبال کے لئے اپنے دل میں کیا جذبات رکھتے تھے اس کا اندازہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے علامہ محمد اقبال کے انتقال پر ادا کئے جانے والے ان الفاظ سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ قائداعظم نے کہا کہ:وہ میرے ذاتی دوست، فلسفی اور رہنما تھے، وہ میرے لیے تشویق، فیضان اور روحانی قوت کا سب سے بڑا ذریعہ تھے۔اسی طرح 1940 میں اقبال ڈے کے موقع پر  قائداعظم نے ان الفاظ کو ادا کیا۔
اگر میں ہندوستان میں ایک مثالی اسلامی ریاست کے حصول تک زندہ رہا اور اس وقت مجھے یہ اختیار دیا گیا کہ میں اقبال کے کلام اور مسلم ریاست کی حکمرانی میں سے ایک کا انتخاب کرلوں تو میں اقبال کے کلام کو ترجیح دوں گا۔
مندرجہ بالا اقتباسات واضح کر رہے ہیں کہ اقبال اور قائداعظم جیسے اکابرین کے علیحدہ وطن اور اس کے تشخص و مستقبل کے بارے میں کس قسم کا نظریہ تھا۔ اقبال کی تیسرے دور کی تمام شاعری کیا پیغام دے رہی ہے؟ سب جانتے ہیں، لہذا ایسے میں یہ کہنا ہے قیام پاکستان کا مقصد مسلمانوں کے لیے محض زمین کا ایک ٹکڑا لینا تھا اور بس! قطعی طور پر غلط، غلط اور غلط ہے۔قائدِ اعظم کی جد و جہد اپنی ذات یا اپنے خاندان کیلئے  نہیں بلکہ خالصتا للہ تھی یعنی صرف رضائے الہی کیلئے تھی - اللہ تعالی نے ان کو اپنے دین کی خدمت کیلئے چن لیا تھا جیسا کہ اقبال بھی فرماتے ہیں چن لیا تقدیر نے وہ دل کہ تھا محرم تیرا - قائدِ اعظم  کا ایک بیان بڑا دلچسپ ہے جس سے ان کی اِسلام اور تاریخِ اِسلام پہ بڑی گہری نظر کا پتہ چلتا ہے جہاں وہ اسلام اور اسلامی روح کو دو الگ الگ تقاضوں میں بیان فرماتے ہیں ۔  قبل ازیں  میں بیان کے دوسرے  حصے کے بارے میں  کچھ کہوں آزادی کے متعلق قائد اعظم محمد علی جناح کا وڑن ایک مختصر اقتباس سے سمجھ لیں جو کہ جون کو شائع ہوا تھا جس میں آپ نے فرمایا کہ :
٭ پاکستان کا مطلب صرف آزادی نہیں ، پاکستان کا مطلب صرف خود مختاری بھی نہیں بلکہ پاکستان کا مطلب اس اِسلامی نظریے کو محفوظ بنانا ہے جو اِس ملک کے اندر ہے( 19 جون 1945 )- آپ نے واضح فرمایا کہ ہم آزادی محض یا آزادی خطہ زمین کیلئے نہیں لڑ رہے بلکہ ہم اِسلامی نظریہ کو محفوظ بنانے کیلئے آزادی چاہتے ہیں-
13نومبر1939  والے بیان کا دوسرا حصہ یہ واضح کرتا ہے کہ بظاہر ایک نظر آنے والی دو چیزیں گہرائی میں دیکھیں تو مختلف ہیں-اسلام اور اِسلامی روح - اسلام تو وہ دین ہے جس کے ہم سب پیروکار ہیں جو کہ قرآن کریم اور سنتِ رسول ؐ میں بیان کردیا گیا ہے  جس کے بعض احکام اوامر ہیں اور بعض نواہی اور اس کی دیگر تمام تفصیلات چاہے وہ قانونی ہوں ، معاشی ہوں ، سماجی ہوں ، سیاسی ہوں ، مذہبی ہوں ، انفرادی ہوں یا اجتماعی ۔ اہم بات سمجھنے کی ہے کہ قائد نے روحِ اِسلامی کو ممیز و ممتاز کر کے کیوں پیش کیا ؟ اِس لئے کہ اِسلام کو ماننے والا ہونا ایک الگ بات ہے اور روحِ اِسلامی سے سرشار ہونا ایک الگ بات ہے ۔ لازمی نہیں کہ اِسلام کا ہر ماننے والا روحِ اسلامی یعنی اسلامی جذبہ و اسلامی عزم سے بھی سرشار ہو ۔

ای پیپر دی نیشن