فرحان انجم ملغانی
ملکی سیاسی صورتحال پر بے یقینی کے بادل بدستور منڈلا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ بندیاں کر دی گئی ہیں ان حلقہ بندیوں پر اعتراضات اور ان کی سماعت شروع ہو چکی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ عام انتخابات کرانے کے جانب الیکشن کمیشن قدم بڑھا چکا ہے۔ الیکشن ہونے کی اس صورتحال کے بعد سیاسی جماعتوں نے واضح طور پر اپنا رنگ جمانا شروع کر دیا ہے۔ عوامی سطح پر تمام بڑی اہم سیاسی جماعتوں نے رابطہ مہم شروع کر دی ہے۔ ملتان میں بھی سیاسی جماعتوں کا تحرک واضح طور پر دیکھنے میں نظر آرہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ملتان کا دو روزہ دورہ کیا۔ جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما سراج الحق نے بھی ملتان میں دورہ کے بعد مختلف سیاسی امیدواروں کے ساتھ ملاقاتیں کی۔ اب مسلم لیگ نون نے بھی عوام میں دوبارہ رابطوں کا ایک منظم سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے پاس واضح طور پر ایک ایسی تاریخ بھی موجود ہے جس کے لیے وہ عوام کے پاس جا کر انہیں جلسوں پر چلنے کے لیے قائل کر رہے ہیں۔ 21 اکتوبر کو مسلم لیگ ن کے مرکزی قائد میاں محمد نواز شریف کی وطن واپسی کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ مسلم لیگ ن کی ڈویڑنل ، ضلعی اور سٹی قیادت اس بارے میں مکمل اور مضبوط رابطے کو یقینی بنا رہی ہے۔ گزشتہ دنوں بھی ملتان میں مسلم لیگ نون کے ذریعے اہتمام مختلف بڑے سیمینارز اور اجلاسوں کا انعقاد کیا گیا ان اجلاسوں میں سینیٹر رانا محمود الحسن ڈویڑنل صدر عبدالرحمن کانجو ، شیخ طارق رشید ، سعد کانجو ، بلال بٹ ، شیخ اطہر ممتاز سمیت لیگی قیادت متحرک رہی۔ مسلم لیگ ن اس دوران عوام کے درمیان جا کر انہیں 21 اکتوبر کو لاہور میں اپنے قائد نواز شریف کے استقبال کے لیے تیار کرتی رہی۔ 21 اکتوبر کو ممکنہ طور پر ملتان سے ضلعی اور ڈویڑنل قیادت اس عوامی رابطہ مہم کے بعد عوام کی ایک پر اثر تعداد کو لے جانے میں کامیاب ہو پاتی ہے یا نہیں ہو پاتی اس کا فیصلہ انے والا وقت ہی بہتر کرے گا۔
جمیعت علمائے اسلام کے مرکزی رہنما مولانا فضل الرحمن بھی گزشتہ دنوں ملتان پہنچ گئے۔ گو ملتان میں ان کا قیام مختصر نوعیت کا تھا تاہم اس دوران بھی انہوں نے بہت اہم قسم کی ملاقاتیں کیں۔ وہ ملتان میں پہلے گلگت کے علاقے میں اپنے مدرسہ میں گئے اور وہاں مختلف تنظیمی عہدے داروں سے ملاقات ہے کی بعض اسلام وہ سابق وزیراعظم کے سابق مشیر اصابق ایم این اے ملک عبدالغفار ٹوگر کی رہائش گاہ پر چلے گئے جہاں انہوں نے ان کے ساتھ مل کر ایک اہم پریس کانفرنس کا انعقاد بھی کیا۔ اس موقع پر مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ وہ الیکشن کے لیے تیار ہیں لیکن الیکشن ایسے موسم میں ہوں جس میں عوام ووٹ کے لیے باہر بھی نکل سکیں خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کے علاقوں میں جنوری کے موسم میں شدید سردی اور برف باری ہوتی ہے اس دوران ووٹرز کے لیے ووٹ کے لیے باہر نکلنا مشکل ہوتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پورا پاکستان الیکشن میں حصہ لے اس کے لیے موسم کا سازگار ہونا بے حد ضروری ہے۔ پیپلز پارٹی اس بات پر متفق ہوئی تھی کہ الیکشن نئی مردم شماری کے تحت ہونے چاہیے۔ پاکستان نواز شریف کا بھی ملک ہے ان کے واپس انے سے ووٹ کو عزت دو کے نعرے کو تقویت ملے گی۔ ہر پارٹی کو الیکشن میں حصہ لینے کا حق ہے۔ تاہم پاکستان مخالف ایجنڈا پر چلنے والوں کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں افغانستان سے لڑنے کا کوئی فائدہ نہیں اگر حالیہ دہشت گردی میں افغانستان کی سرزمین استعمال ہوتی ہے تو افغان حکومت سے اس بارے میں بات چیت کرنی چاہیے اس موقع پر انہوں نے فلسطین پر اسرائیلی حملے کی بھی شدید مذمت کی اور کہا کہ مسلمانوں پر فلسطین میں ظلم ہو رہا ہے اقوام متحدہ کو انکھیں کھولنی چاہیے کشمیر بوسنیا سمیت جہاں جہاں بھی مسلمان لڑ رہے ہیں ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔