نگران حکومتوں کا ایجنڈا اور جمہوری سیٹ اپ کا مستقبل!

ندیم بسرا
ملک کے اندر سیاسی گہما گہمی تو کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہی ،تاہم مسلم لیگ ن اپنے قائد نواز شریف کی تیاریوں میں مصروف نظر آتی ہے اس سے یہ تاثر نہیں لیا جاسکتا کہ سیاسی سرگرمیاں عرو ج پر ہیں اور آئندہ کچھ عرصے کے بعد انتخابات ہوجائیںگے۔سیاسی پنڈتوں اور دانشوروں کوایک ہی وقت کئی گھمبیرسوال گھیرے ہوئے ہیں جن کا جواب قیاس آرائیوں سے بھی نہیں لیا حاصل کیاجاسکتا کہ اگر انتخابات فوری نہیں ہورہے تو نواز شریف وطن واپس کیوں آرہے ہیں ؟۔کیان لیگ اپنے بھکرتے ووٹرز کو ایک جگہ کرنا چاہتی ہے ؟۔دوسری جانب محسوس ہورہا ہے کہ نگران حکومتیںاپنا ہی کئی برسوں کا ایجنڈا لے کر چل رہی ہیں توپھرملک کا جمہوری سیٹ اپ کہاں جائے گا ؟ڈالر کی بریک لگانے کے اقدامات سے نگران حکومت کیا حاصل کرنا چاہتی ہے ؟ کیاسابقہ حکومتوں کی کارکردگی کو بے نقاب کرنا چاہتی ہے ؟۔بجلی کی ملک گیر چوری کا خیال اسی نگران حکومت کوہی کیوں آیا ؟۔انتخابات فوری نہیں ہوتے تو پیپلز پارٹی کہاں کھڑی ہوگی ؟۔پی ٹی آئی جماعت کا وجود مستقبل میں ختم ہوجائے گا ؟۔اس قسم کی کئی اور سوالا ت بھی ہیںجس کا جواب وقت ہی دے سکتا ہے۔پنجاب میں نواز شریف کی وطن واپسی پر استقبال کی تیاریاں جاری ہیں۔ ذرائع کا کہناہے کہ ن لیگ کے قائد کے استقبال کیلئے مینار پاکستان پنڈال میں کارکنان لانے کی ذمہ داری احسن طریقے سے سرانجام دینے والوں کی آئندہ انتخابات میں پارٹی ٹکٹ کنفرم ہوگا۔ مینار پاکستان پر جلسے کے پنڈال میں 3 منزلہ سٹیج تیار کیا جائے گا۔ پنڈال میں لاہور سمیت دیگر اضلاع کے قومی اسمبلی کے حلقوں کے نمبروں کے حساب سے الگ الگ انکلیو بنائے جائیں گے، پنڈال میں خواتین ونگ، یوتھ ونگ، کسان ونگ، لائیرز ونگ، اقلیتی ونگ سمیت دیگر تمام ذیلی تنظیموں کے لئے بھی الگ الگ انکلیو مخصوص کئے جائیں گے، سابق اراکین قومی و صوبائی اسمبلی و ٹکٹ ہولڈرز اپنے اپنے حلقے کے کارکنان کے ساتھ پنڈال میں مخصوص کئے گئے انکلیو میں موجود رہیں گے۔ پنڈال میں ہر ایک انکلیو میں 3500 سے 5500 کرسیاں لگائی جائیں گی، پنڈال میں 6 بڑی ایس ایم ڈیز بھی نصب کی جائیں گی۔تمام ٹکٹ ہولڈرز اور سابق صوبائی اراکین اسمبلی کو 3500 کارکنان کو جلسہ گاہ لانے کی ذمہ داری سونپ دی گئی،قومی اسمبلی کے سابق ارکان اور ٹکٹ ہولڈرز کو 5000 کارکنان لانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، پنڈال میں مخصوص انکلیو بنا کر ہر ایک رہنما کے کارکنان کی تعداد گنی جائے گی، کارکنان لانے کی ذمہ داری احسن طریقے سے سرانجام دینے والوں کی آئندہ انتخابات میں پارٹی ٹکٹ کنفرم کی جائے گی۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے 21 اکتوبر کو پارٹی سربراہ نواز شریف کی وطن واپسی سے قبل پارٹی کارکنان کو متحرک کرنے کے لیے لاہور میں 3 جلسوں کے انعقاد کا فیصلہ منسوخ کردیا ہے۔ اس از سر نوفیصلے کا مقصد بظاہر یہ ہے کہ 21 اکتوبر کے بڑے پاور شو سے قبل پارٹی کارکنان کو تھکاوٹ سے بچایا جائے۔پارٹی کے اندر اختلافات کی خبریں بھی سامنے آتی رہتی ہیں خصوصا پنجاب اور لاہور کی قیادت میں اختلافات بارے نواز شریف بھی پریشان ہیں انہوںنے شہباز شریف سے کہا کہ وہ 21 اکتوبر کے جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے پنجاب کے کچھ رہنماو¿ں، بالخصوص مسلم لیگ (ن) لاہور کے رہنماوں کے درمیان اختلافات کو فوری طور پر دور کریں۔ایک رپورٹ کے مطابق چند روز قبل ٹھوکر نیاز بیگ کے جلسے میں مسلم لیگ (ن) لاہور کے صدر سیف الملوک کھوکھر کو مبینہ طور پر اپنے حلقے کے انتہائی پسماندہ علاقوں سے لوگوں کو لانا پڑا تھا، لہٰذا پارٹی کو شبہ تھا کہ سعد رفیق یا رانا مشہود شاید اپنے حلقوں میں بڑے جلسوں کا اہتمام نہیں کر سکیں گے جس کی پارٹی متحمل نہیں ہو سکتی۔اس وجہ سے ان کے حلقوں کے جلسے کینسل کئے گئے۔اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے دعویٰ کیا کہ رانا ثنا اللہ کی سربراہی میں مسلم لیگ (ن) پنجاب اور سیف الملوک کھوکھر کی سربراہی میں مسلم لیگ (ن) لاہور کے درمیان اچھی ہم آہنگی نہیں ہے، سعد رفیق اور سیف الملوک کھوکھر کے درمیان اختلافات پہلے ہی میڈیا میں رپورٹ ہو چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس تناظر میں نواز شریف نے شہباز شریف سے کہا ہے کہ وہ ان پارٹی رہنماو¿ں کے درمیان اختلافات کو دور کریں تاکہ یہ مسئلہ مینار پاکستان پر ا±ن کے استقبال پر اثر انداز نہ ہو۔

ای پیپر دی نیشن