بزرگ شہریوں کا کچھ تو خیال کرو

Oct 12, 2023

چودھری ریاض مسعود


پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین مالی اور معاشی بحران سے گزر رہا ہے اور ہمیں نظام ریاست چلانے کے لیے عالمی مالیاتی اداروں ، ترقی یافتہ ممالک اور خاص کر اپنے دوست ممالک کے سامنے ”کشکول گدائی“دراز کرنا پڑتا ہے۔ ”مانگے تانگے کی دولت“، ناقص منصوبہ بندی اور شاہ خرچیوں کی وجہ سے ہم اس وقت 64ہزار ارب روپے کے بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیںاور ابھی آئی ایم ایف سے قرضے کی ایک اور قسط لینے کے لیے ”ہاتھ پاو¿ں“ مار رہے ہیں انہی کی ڈکٹیشن پر ہم اپنے عوام کو ہی”مہنگائی کی چکی“میں پیس رہے ہیں اور آئے دن بجلی ، گیس، پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ موجودہ ٹیکسوں کی شرح میں مزید اضافہ اور عوام پر نئے ٹیکس لگانے میں جُتے ہوئے ہیں افسوس ناک امر یہ ہے کہ نگران حکومتیں عوام کو مہنگائی بے روزگاری اور غربت کی سونامی میں غوطے دے رہی ہیں جس سے ہمارا ہر عام شہری خاص کر اڑھائی کروڑ کے لگ بھگ بزرگ شہری بُری طرح متاثر ہو رہے ہیں کوئی اِن کا پُرسان حال نہیں ہے آپ یورپی ممالک کو دیکھیں وہاں بزرگ شہریوں کو ریاست ہر طرح کی سہولتیں فراہم کرتی ہے لیکن یہاں ہمارے ”بزرگ شہری“انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں دکھ کی بات ہے کہ ہمارے سیاست دانوں کو بھی ”بزرگ شہری اور ان کے ووٹ“ صرف الیکشن کے موسم میں ہی نظر آتے ہیں اور وہ جھوٹے وعدے کر کے اور سبز باغ دکھا کر ان بزرگوں کے قیمتی ووٹ ہتھیانے کی کوشش کرتے ہیں یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ”اقتدار کے ایوانوں “تک پہنچنے والے تقریباً55سے 60فیصد سیاست دان بزرگ ہی ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ مفاد پرست سیاست دان بزرگوں کی فلاح و بہبود کے لیے ”دھیلے کا کام“بھی نہیں کرتے ۔ سابقہ پی ڈی ایم حکومت کے مالی سال 2023-24ءکے بجٹ میں ©”بزرگ شہریوں کی فلاح و بہبود“کے الفاظ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے ۔ بزرگ شہریوں کو علاج معالجے ، لیبارٹری ٹیسٹ اور ادویات کی خریداری میں کسی قسم کی رعائیت نہیں دی گئی بلکہ جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں 200سے 250فیصد تک اضافہ ہوا، بزرگ شہریوں کو ٹرانسپورٹ کے کرایوں، بیمہ کروانے ، قرضہ لینے ، ڈرائیونگ لائسنس کے اجرائ، ٹیکسوں میں معافی و رعائیت ، بنک ٹرانزکشن پر ود ہولڈنگ ٹیکس سمیت کسی قسم کی کوئی ریلیف نہیں دی گئی۔ بزرگ شہریوں کو کسی بھی ریلوے اسٹیشن ، بس سٹینڈ ، بس سٹاپ حتی کہ ہوٹلوں میں بھی ویل چیئرز اور مخصوص راستے کی سہولتیں میسر نہیں ہیں مثلاً ان بزرگ شہریوں کو ٹیکس کے دفاتر، بنکوں ، بجلی اور گیس ، ٹیلی فون اور شہری سہولتوں سے متعلقہ دفاتر میں کسی قسم کی سہولتیں نہیں دی جاتیں البتہ بنکوں میں شیشے پر کاغذ کی6x3 انچ کی ایک پرچی ”کاو¿نٹر برائے سنئیر سٹیزن“لگی ہوئی ضرور نظر آئے گی لیکن بزرگ پھر بھی طویل قطاروں میں کھڑے نظر آئیں گے۔یہ دکھ بھری تلخ داستان ہے کہ ہم ہر سطح پر اپنے بزرگوں کی حق تلفی کر رہے ہیں آپ بوڑھے بزرگ پنشنرز کے ساتھ ہونے والی حالیہ زیادتی کو ہی دیکھ لیں کہ قیام پاکستان سے لے کر 30جون 2023ءتک یہ اصول رہا ہے کہ جس شرح سے حاضر سروس ملازمین کی تنخواہیں بڑھتی تھیں اسی شرح سے پنشن میں بھی اضافہ ہوتا تھا لیکن موجودہ مالی سال کے بجٹ میں تنخواہوں میں 35فیصد اور پنشن میں صرف 17.50فیصد کا اضافہ اور ریٹائرڈ ملازمین گروپ انشورنس کی رقم واپس نہ کر کے ان کے میڈیکل الاو¿نس میں 100 فیصد اضافہ نہ کر کے بوڑھے بزرگ پنشنرز کی صریحاً حق تلفی کی گئی ہے جس کا کسی عدالت نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ سابقہ دو حکومتوں نے تو آئی ایم ایف کے اشارے پر پنشن کو یک سر ختم کرنے کا منصوبہ بنایا اور پنشن کو قومی خزانے اور ملکی معیشت پر بوجھ بھی قرار دیا تھا ۔ نگران حکومتیں جن کا مینڈیٹ آزادانہ ، غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کروانا ہے ان کی طرف سے بھی بزرگ پنشنرز کی پنشن پر وار کرنے کی خبریں آئے دِن اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ سخت ترین حالات میں دن رات کام کر کے ملک کے انتظامی ڈھانچے کو مضبوط بنانے والے یہ بزرگ اب حکمرانوں کو بوجھ لگتے ہیں اور وہ ان کے بڑھاپے کا واحد سہارا پنشن کو ختم کرنے کے درپے ہیں ۔ افسوس ناک امریہ ہے کہ ”پنشن پروار“کرنے میں پنجاب کی حکومت سب پر ©”بازی“لے گئی ہے اور پنشن کو قوانین تبدیل کرنے اور اس میں کٹوتی کرنے کے احکامات جاری بھی ہوچکے ہیں اس وقت پنجاب کے ہر ضلع میں لیو اِن کیش منٹ اور پنشن کے قوانین تبدیل کرنے پر مظاہرے اور دھرنے ہورہے ہیں لیکن نگران حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ بزرگ پنشنرز کے جائز حق کے لیے پرنٹ، الیکٹرنک اور سوشل میڈیا سمیت تمام NGOاور سیاسی جماعتیں ”چپ سادھے“ہوئے ہیں کسی نے بھی حاضر سروس ملازمین اور پنشنروں کے حق میں آواز بلند نہیں کی۔ ظلم و زیادتی اور ناانصافی کی انتہائی کے ہمارے قومی بنکوں کے لاکھوں بوڑھے بزرگ پنشنرز کی پنشن نہ صرف گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل منجمد ہے بلکہ انہیں برائے نام پنشن دی جاتی ہے جو مختلف بنکوں میں تقریباً ساڑھے چار ہزار روپے سے ساڑھے آٹھ ہزار ر وپے ماہوار مل رہی ہے کیا اتنی قلیل پنشن سے زندگی کی گاڑی کھینچی جا سکتی ہے دوسری طرف پاکستان کے قومی اداروں ریلوے، پی آئی اے، پی ٹی سی ایل ، پاکستان اسٹیل ملز سمیت کئی اداروں کے بوڑھے بزرگ پنشنرز نہ صرف رُل گئے ہیں بلکہ انہیں پنشن میں سالانہ اضافے اور اس کے بر وقت حصول میں بے پناہ مسائل کا سامنا ہے حکومت کے ذمہ داران بوڑھے بزرگوں کے ساتھ اس صریحاً زیادتی پر کوئی نوٹس نہیں لے رہے ۔
 ایسی ہی صورتحال صنعتی اداروں سے ریٹائر ہونے والے EOBIکے رجسٹرڈپنشنرز کی ہے جو اس مہنگائی کے دور میں محض دس ہزار ماہوار بڑھاپے کی پنشن لے رہے ہیں یاد رہے کہ ماضی میں اربوں کھربوں روپے کے اثاثے رکھنے والے ادارے EOBIمیں اربوں روپے کی خُردبُرد ہوئی اس پر مستزاد یہ کہ صنعتی ورکروں کی کنٹری بیوشن سے جمع ہونے والے سرمائے سے اس ادرے کے اپنے ملازمین مراعات لے رہے ہیں لیکن ساڑھے 5لاکھ سے زائد بوڑھے بزرگ پنشنروں بیواو¿ں کو محض دس ہزارروپے ماہانہ دے کے کر احسانِ عظیم "کیا جارہا ہے حالانکہ اس منافع بخش ادارے EOBIمیں بڑھاپے کی پنشن مزدور کی کم از کم اُجرت 35000روپے ماہوار کے برابر ہونی چاہیے ۔ حکومت نہ جانے اس اہم مسلئے کی طرف کب توجہ دے گی؟۔ کیا ہم انہیں ترجیحی بنیادوں پر زندگی کی سہولتیں دے رہے ہیں ؟ کیا ہم انہیں علاج معالجے ، لیبارٹری ٹیسٹ اور ادویات سمیت دیگر سہولتیں مفت دے رہے ہیں ؟ کیا ہم انہیں صرف سینئر سٹیزن کا "فرضی درجہ"دے کر اللہ کے حضور سر خرو ہو سکتے ہیں ؟
 یہ بات حکومت سمیت سب کے سوچنے کی ہے کہ ہم روز قیامت بزرگوں کے حقوق کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے؟۔ کیا ہم اسلامی تعلیمات کے مطابق بوڑھے بزرگوں کی صحیح معنوں میں خدمت کررہے ہیں۔

مزیدخبریں