نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے گزشتہ روز چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کے ہمراہ کوئٹہ کا دورہ کیا اور صوبائی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان علی مردان خان ڈومکی بھی اجلاس میں موجود تھے۔
دوران اجلاس شرکاءکو نظرثانی شدہ نیشنل ایکشن پلان، لاءانفورسمنٹ اپریشن ، سی پیک اور نان سی پیک یا پرائیویٹ منصوبوں میں کام کرنے والے غیر ملکیوں کی سیکورٹی، غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی اپنے ملک واپسی کی ڈیڈ لائین، فارن کرنسی کو باقاعدہ بنانے سے متعلق اقدامات اور بلوچستان میں ایس آئی ایف سی کے اقدامات پر پیش رفت کے حوالے سے آگاہ کیا گیا۔
وزیر اعظم نے ان معاملات میں بلوچستان حکومت کی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا اور وفاقی حکومت کی جانب سے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ ان کے بقول صوبے کے امن و ترقی کو یقینی بنانے کے لئے بلوچستان کی سماجی و اقتصادی ترقی ناگزیر ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف نے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے اس امر پر روشنی ڈالی کہ فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں اور د یگر سرکاری محکموں کے ساتھ مل کر غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف کارروائیوں کے لئے پوری طاقت کے ساتھ مکمل تعاون فراہم کرے گی تاکہ وسائل کی لوٹ مار اور غیر قانونی سرگرمیوں سے ملک کو ہونے والے معاشی نقصانات کو روکا جا سکے۔
علاوہ ازیں نگران وزیر اعظم کاکڑ نے کوئٹہ میں سینئر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سمگلنگ اور غیر ملکی کرنسی کی تجارت پاکستان کے وجود کے لئے خطرہ ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ مقامی حکام کی ملی بھگت سے سمگل شدہ ایرانی تیل کی 27 ہزار گاڑیاں روزانہ غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہو رہی تھیں۔ ان گاڑیوں کے داخلے کے لئے متعلقہ ڈپٹی کمشنرز کو سوا لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ روپے فی گاڑی رشوت دی جا رہی تھی اور ڈپٹی کمشنرز سمگلنگ میں کردار ادا کرنے والوں کو بھی شیئرز دے رہے تھے۔ اب ان گاڑیوں کی سرحد پار سے غیر قانونی نقل و حرکت تقریباً بند ہو چکی ہے۔ عسکری اور سول قیادت نے سمگلنگ کے خلاف فیصلہ کن مہم شروع کی اور سخت کریک ڈاﺅن کیا گیا۔ جس کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ وزیر اعظم کے بقول صرف گیارہ اشیاءکی سمگلنگ کی صورت میں قومی خزانے کو ڈیوٹیوں اور ٹیکسوں کی مد میں تقریباً ساڑھے تین ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب کو واجب الادا ٹیکس ادا کرنے چاہئیں۔
یہ امر واقع ہے کہ ماضی میں حکومتی گورننس کے کمزور ہونے اور ادارہ جاتی سطح پر بھی سیاسی ترجیحات کے عمل دخل کے باعث مختلف مافیاز کے تشکیل پانے، پروان چڑھنے اوران کی جانب سے حکومتوں کو بلیک میل کر کے اپنے مفادات کے راستے نکالنے کا موقع ملتا رہا ہے۔ ان مافیاز کی اقتدار کے ایوانوں میں بھی آسان رسائی ہوتی تھی چنانچہ وہ خود پر قانون کی عملداری رکوانے میں بھی کامیاب ہو جاتے تھے اور اپنی مصنوعات و اشیاءکی ناجائز ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی قلت پیدا کر کے وہ من مانے نرخ مقرر کرتے اور مجبور عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے۔ اس حوالے سے پٹرولیم اور شوگر مافیا نے تو ناجائز منافع خوری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جبکہ ان کی مسلط کردہ مہنگائی سے عاجز آ کر عوام حکومت پر ہی اپنا غصہ نکالتے رہے۔ ان ساری ناجائز خوریوں میں مافیاز کو لامحالہ حکومتی ، انتظامی مشینری کا تحفظ حاصل رہا ہے جن کی باہمی ملی بھگت سے جہاں عوام زچ ہوئے، وہیں معیشت کی بنیاد بھی مستحکم نہ ہو پائی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ سمگلنگ اور دوسرے ناجائز کاروبار میں گزشتہ 45 سال سے خیبر پی کے، بلوچستان، اسلام آباد سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں غیر قانونی طور پر مستقل ڈیرے ڈالے بیٹھے افغان مہاجرین کا ہی بنیادی عمل دخل رہا ہے جو ناجائز دھندے کے ذریعے اور اپنے ساتھ لائے گئے کلاشنکوف کلچر کی بدولت خوف و دہشت کی فضا پیدا کر کے پاکستان کی معیشت و معاشرت پر منفی اثرات مرتب کرتے رہے ہیں۔ زیادہ تر یہی باشندے اغوا برائے تاوان، قتل ، ڈکیتی، راہزنی اور دہشت گردی کی وارداتوں میں بھی شریک رہے ہیں جس کے ٹھوس ثبوت بھی پاکستان کی انٹیلی جنس اور سیکورٹی ایجنسیوں کے پاس موجود ہیں تاہم سیاسی مصلحتوں اور مفاداتی سیاست کے باعث کوئی بھی حکمران افغان مہاجرین کو ان کے ملک واپس بھجوانے کی کوئی سخت اور ٹھوس پالیسی وضع نہ کر پایا چنانچہ ان ناجائز مقیم غیر ملکیوں کو کُھل کھیلنے اور پاکستان کی سرزمین کو اجاڑنے کا نادر موقع ملتا رہا جنہوں نے متعلقہ حکام کے ساتھ ملی بھگت کر کے نہ صرف ڈالر اور اجناس کی سمگلنگ کو اپنا ذریعہ¿ آمدنی بنایا بلکہ پاکستان کے قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ تک حاصل کر لئے۔
افغان مہاجرین کو حاصل ہونے اس ناجائز تحفظ کی بنیاد پر ہی افغانستان اور پاکستان کی تحریک طالبان کو افغان مہاجرین کے بھیس میں اپنے دہشت گرد اور انتشار پسند عناصر افغان مہاجرین میں گھسیڑنے کا موقع ملا جو کابل میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد اس کی آشیرباد اور بھارت کی سہولت کاری کے ساتھ گزشتہ دو سال سے پاکستان میں دہشت گردی اور خودکش حملوں کے ذریعے سیکورٹی فورسز کے جوانوں اور افسران اور معصوم شہریوں کا بے دریغ خون بہا رہے ہیں جس کے نتیجہ میں ملک میں خوف و ہراس پیدا ہونے اور امن و استحکام مخدوش ہونے سے ملک میں سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام بھی در آیا ہے۔ بدقسمتی سے پی ٹی آئی کے دور میں افغان مہاجرین اور کالعدم ٹی ٹی پی کے لوگوں کو اپنی سرگرمیوں کے لئے حکومتی سرپرستی اور سہولتیں بھی حاصل ہو گئیں جنہیں پی ٹی آئی چیئرمین نے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ اس کا ملک کے عوام کو ہی نہیں، ریاستی اداروں کو بھی گورننس کی کمزوری کے تاثر کے باعث نقصان اٹھانا پڑا۔
گزشتہ ماہ عید میلاد النبی کے موقع پر بلوچستان اور خیبر پی کے میں سفاکانہ دہشت گردی کی پے درپے وارداتوں اور اپریشنز میں مصروف سیکورٹی فورسز پر حملوں کے نتیجہ میں سو سے زائد بے گناہ انسانی جانیں ضائع ہوئیں تو ملک کی عسکری اور سیاسی قیادتوں نے ایک نئے عزم کے ساتھ دہشت گردوں اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث دوسرے عناصر بشمول ناجائز مقیم غیر ملکی باشندوں پر سختی سے قانون کی عملداری نافذ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلہ میں رواں ماہ کے آغاز میں اسلام آباد میں قومی ایپکس کمیٹی کا اجلاس طلب کر کے ملک کی سول اور عسکری قیادتوں نے دہشت گردی، سمگلنگ، ذخیرہ اندوزی اور دیگر جرائم کے قلع قمع اور اس کے ساتھ ساتھ غیر قانونی مقیم غیر ملکی باشندوں کے انخلاءکے لئے ایک جامع منصوبہ بندی طے کی اور غیر ملکیوں کے انخلاءکے لئے -31 اکتوبر کی ڈیڈی لائین مقرر کر دی۔ اس منصوبہ بندی پر ٹھوس عملدرآمد اور پیش رفت کا مستقل بنیادوں پر جائزہ لینے کے لئے صوبائی ایپکس کمیٹیوں کو بھی متحرک کیا گیا۔ چنانچہ رواں ماہ کے دوران ہی سندھ اور بلوچستان ایپکس کمیٹیوں کے اجلاس بھی منعقد ہو چکے ہیں جن میں وزیر اعظم اور آرمی چیف سمیت تمام سول اور عسکری قیادتیں شریک ہو کر ملک کی امن و امان کی اور سیاسی و اقتصادی صورت حال کا جائزہ لیتی ہیں اور مزید عملی اقدامات کا فیصلہ کرتی ہیں چنانچہ ان اقدامات کے نتیجہ میں ڈالر کی جستیں ترقی¿ معکوس کی جانب آ گئی ہیں۔ پاکستانی روپیہ اپنے پاﺅں پر کھڑا ہو گیا ہے اور سونے کا بھاﺅ بھی گرتا گرتا عام آدمی کی پہنچ میں آنے لگا ہے۔ اگر سیاسی اور عسکری قیادتوں کے ٹھوس اقدامات سے سمگلنگ کی مکمل روک تھام بھی ممکن ہو گئی تو کوئی وجہ نہیں کہ ہماری معیشت کو استحکام نہ ملے اور عوام کو ناجائز منافع خور مافیاز سے نجات نہ ملے۔ نتیجتاً بے قابو ہونے والی مہنگائی بھی حکومتی ریاستی گورننس کے آگے ڈھیر ہو جائے گی اور ملک سیاسی اور اقتصادی استحکام سے بھی ہمکنار ہو جائے گا۔ اس کے لئے قومی سیاسی، عسکری اور ادارہ جاتی قیادتوں میں یکسوئی ہو گی تو ملک اور عوام کو درپیش تمام مسائل ایک ایک کر کے حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔
حکومتی ، ریاستی گورننس مضبوط ہونے کے مثبت اشارے
Oct 12, 2023