فلسطین پر ناجائز ریاست اسرائیل کی طرف سے حملے تیز کردیے گئے ہیں جبکہ غزہ کی ناکہ بندی بھی سخت کردی گئی ہے۔ غاصب صہیونی ریاست کی طرف سے فلسطین کے آبادی والے علاقوں اور پناہ گزین کیمپ پر بھی حملے کیے جارہے ہیں جبکہ ایمبولینسز اور امداد کارکن بھی ان حملوں کی زد میں آئے ہیں۔ اسرائیلی حملوں میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 788 ہوگئی ہے جبکہ 3800 سے زائد زخمی ہیں۔ تازہ اسرائیلی بمباری سے 3 فلسطینی صحافی جاں بحق ہوئے جبکہ ہفتے کے روز سے جاری بمباری میں اب تک 7 صحافی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ناکہ بندی سے شہریوں کی بقا خطرے میں آجائے گی۔ادھر، ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے اپنے اسرائیلی ہم منصب اسحاق ہرزوک سے ٹیلیفونک رابطہ کیا اور حماس کی آڑ میں نہتے فلسطینیوں کو نشانہ بنانے سے گریز کرنے کا مطالبہ کیا۔ صدر اردوان نے اسرائیلی صدر پر علاقے میں امن کے لیے دو ریاستی فارمولے پر بھی زور دیا۔ اس قسم کی اطلاعات بھی موصول ہورہی ہیں کہ غاصب اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی کی سرحد پر بارودی سرنگیں بچھانا شروع کردی ہیں۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نے کہا کہ اسرائیل کا غزہ کی پٹی کا مکمل محاصرہ جس سے شہری زندگی کی بقا کے لیے ضروری اشیا سے محروم ہوجائیں، عالمی قانون کے تحت ممنوع ہے۔انسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر نے کہا کہ لوگوں کے وقار اور جانوں کا احترام کیا جانا چاہیے۔ انھوں نے تمام فریقوں سے کشیدگی کم کرنے کا مطالبہ کیا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے کہا کہ تقریباً ایک لاکھ 37 ہزار فراد اقوام متحدہ کی فلسطینیوں کو ضروری خدمات فراہم کرنے والی ایجنسی یو این آر ڈبلیو اے کے پاس پناہ لے رہے ہیں۔ اس پوری صورتحال میں مسلم ممالک اور اقوامِ متحدہ کٹھ پتلیوں کا کردار ادا کررہے ہیں جبکہ امریکا سمیت کئی مغربی ممالک آگے بڑھ کر غاصب اسرائیلیوں کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں۔ ان حالات میں اگر مظلوم فلسطینی اپنے دفاع کے لیے غاصب اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے خلاف مزاحمت بھی نہ کریں تو اور کیا کریں۔ اگر اقوامِ متحدہ واقعی اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرانے میں سنجیدگی رکھتا ہے تو اسے بین الاقوامی طور پر مسلمہ دو ریاستی فارمولے پر عمل درآمد یقینی بنانا ہوگا۔