کل ٹریفک سگنل پر نہایت ضعیف گداگر نے دست سوال دراز کیا اور میں نے گاڑی میں موجود کچھ کھانے کی چیزیں ان کی طرف بڑھا دیں ۔ بزرگ نے پیکٹ ہاتھ میں پکڑتے ہی آنکھیں موند کر آسمان کی طرف دیکھا اور کچھ بڑ بڑانا شروع کر دیا۔ اس حرکت سے مجھے اپنے دو سالہ بھانجے کی وہ کیفیت یاد آئی جو موبائل کے حصول کی کوشش کے بعد اچانک مل جانے پر ہوئی تھی اس نے بھی مسکراتے ہوتے آنکھیں بند کیں اور موبائل کو سینے سے لگا کر پہلے حاصل کی خوشی کو محسوس کرنا ضروری سمجھا ۔ آخر ہم کیوں غم ، خوشی یا دعا کرتے ہوئے آنکھیں بند کرتے ہیں ۔ لاحاصل سے اغماض برتنا تو سمجھ آتا ہے مگر حاصل کا لطف تو دید سے دوبالا ہوتاہے ۔ ایسا کیا ہوتا ہے جسے دیکھے بغیر صرف اندر کہیں محسوس کیا جاتا ہے ۔ ہم اپنی روزمرہ روٹین میں ہی دن میں کئی بار اس کیفیت سے گزرتے ہیں یا کسی دوسرے کو ایسا کرتے دیکھتے ہیں کہ کسی کیفیت کے زیر اثر چاہے وہ خوشی کی ہو یا غم کی ہم غیر ارادی طور پر آنکھیں بند کر کے دل سے محسوس کرنا چاہتے ہیں ۔ اس ساری ڈرامائی تمہید کا مقصد بصارت سے محروم افراد کے انداز فکر و تصور کے ساتھ تعلق جوڑنا اور مماثلت تلاش کرنے کی سعی ہے ۔اکتوبر کے دوسرے ہفتے نابینا افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر عالمی یوم بصارت منایا جاتا ہے۔ آنکھوں کی اہمیت کیا ہے؟ بصارت کتنی بڑی نعمت ہے اس سے انکار ممکن نہیں مگر جن کو یہ نعمت میسر نہیں ان کو قدرت کی طرف سے اور بہت سی خوبیاں ودیعت شدہ ہیں ۔ اس دن کا مقصد یہی ہو گا کہ نابینا افراد کی پوشیدہ صلاحیتوں کا اندازہ لگایا جائے تاکہ وہ بھی خود کو کارآمد شہری محسوس کریں ۔ دنیا میں تقریبا ساڑھے تین کروڑ افراد بصا رت سے محروم ہیں جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور پاکستان میں بھی مکمل نابینا افراد تقریبا بیس لاکھ اور ستر لاکھ سے زائد افراد جزوی طور پر اندھے پن کا شکار ہیں ۔ جزوی طور پر اندھا پن بیشتر اوقات قابل علاج ہوتا ہے مگر آگاہی نہ ہونے اور علاج کی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے یہ حالت بینائی کے مکمل نقصان کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے ۔ آنکھوں کی بیماریوں اور شوگر کی وجہ سے بڑی عمر میں نابینا ہونے والے افراد اکثر اوقات ایک مرحلہ وار عمل کے بعد مکمل نابینا ہوتے ہیں جس میں کافی عرصہ لگتا ہے یا پھرکوئی اچانک حادثہ بھی اس کا سبب بن جاتا ہے جیسے پچھلے دنوں آنکھوں میں جعلی قطرے ڈالنے سے بہت سے افراد کو بینائی سے ہاتھ دھونا پڑا ۔ بات کی جائے پیدائشی نابینا افراد کی تو آغاز سے ہی ان کی زندگی کافی دشوار ہو جاتی ہے ۔نابینا بچوں کو یا تو معاشرے سے الگ کر دیا جاتا ہے یا پھر اپنے ساتھیوں اور یہاں تک کے خاندان کی طرف سے بھی جھنجھلاہٹ اور اجتناب کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں ان میں سماجی محرومی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ ان کے لیے تعلیم اور دیگر سہولیات بڑے شہروں تو کچھ حد تک موجود ہیں مگر دیہات اور چھوٹے شہروں میں سپیشل چلڈرن سکولز نہ ہونے کے برابر ہیں اگر ہیں بھی تو تربیت یافتہ سٹاف کی کمی کا شکار ہیں ۔ عام طور پر کم آمدن والے گھرانے نابینا بچوں کو کسی مدرسے میں داخل کروا دیتے ہیں جہاں بچے قرآن حفظ کی سعادت حاصل کرتے ہیں کیونکہ اکثر نابینا افرا نہایت خوش اِلحان ہوتے ہیں ۔ بینائی حصول علم کی ابتدا ہو سکتی ہے مگر عقل اور شعور کا تعلق صرف بصارت سے نہیں ہوتا با بصیرت نابینا افراد کی دنیا میں بے تحاشا مثالیں ہیں ۔پاکستان کی مثال دیں تو 1960میں “پاکستان ایسویسی ایشن آف دی بلائنڈ“ قائم کرنے والی باہمت خاتون ڈاکٹر فاطمہ شاہ جنہوں نے بصارت سے محروم افراد کی انفرادی اہمیت ،شناخت اور مسائل کو نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا ۔ پھر پاکستان کی پہلی نابینا سفارتکار صائمہ سلیم کانام قابل ذکر ہے جنہوں نے اقوام متحدہ میں پاکستانی مشن کی بھرپور نمائندگی کی ۔ “ society disabled“جیسی کتاب اور دیگر کئی کتابوں کے مصنف زاہد عبداللہ جنہوں نے اپنی کمی کو کبھی راستے کی رکاوٹ بننے نہیں دیا ۔ اسی طرح android blind cafeکے نام سے یوٹیوب چینل چلانے والے دو نابینا میاں بیوی جنہوں نے اپنے علم کو دوسروں سے بانٹنے اور دیگر نابینا افراد کی زندگی آسان کرنے کا بیڑہ اٹھایا ۔تیمور حسن ایسے نابینا شاعر جو الفاظ کی ایسی جادوگری جانتے ہیں کہ داد دیے بغیر نہیں رہا جاسکتا ۔ اس کے علاوہ عدلیہ ، طب ، تعلیم اور تقریباً ہر شعبے میں بصری آگہی سے محروم افراد دل بینا کے ساتھ اپنے اپنے شعبے میں بہترین خدمات سر انجام دے رہے ہیں بقول اقبال
دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
نابینا افراد کو روزمرہ کام سر انجام دینے کے لیے آنے جانے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔حصول علم کے لیے ہر تعلیمی سطح پر اور پیشہ ورانہ نمو کے لیے بھی ابھرے نقوش والی خصوصی بریل کتب کا ہونا بے حد ضروری ہے مگر یہ کتب پاکستان میں نہائیت قلیل تعداد میں دستیاب ہیں ۔ نابینا طلبا و طالبات کو امتحانات کے لیے اسکرائب کی ضرورت ہوتی جو ان کی جگہ امتحان دے سکے۔ اعلی سطح کے امتحانات میں تو حکومت کی طرف سے متعین کردئیے فرد یہ خدمت سر انجام دیتے ہیں : مگر نچلے درجے کے امتحانی نظام اور تیاری کے لئے کے لیے مددگاروں کی ضرورت ہوتی ہے شائد لوگ آمادہ بھی ہوں مگر بہت کم لوگ اس بارے میں معلومات رکھتے ہیں ۔ پاکستان میں بہت سے نابینا افراد ایسے ہیں جن کی بینائی کورنیا ٹرانسپلانٹ کے زریعے واپس لائی جاسکتی ہے مگر آنکھوں کو عطیہ کرنے کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے اکثرکورنیا باہر سے انتہائی مہنگے داموں درآمد کرنا پڑتا ہے ۔بعد ازمرگ بھی کسی کی اندھیری دنیا کو روشن کرنے سے بڑھ کر بھلائی کی مثال اور کیا ہوگی ۔اس طرح کے ایام یاد دہانی کے لیے منائے جاتے ہیں کہ معاشرے کی بھلائی ، بہتری اور ترقی کے لیے ضروری ہے کہ کسی کی قسم کی بھی جسمانی معذوری رکھنے والے خاص طور پر بصارت سے محروم افراد کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کیے جائیں۔