ایوارڈز کہانی اور۔۔۔ ون ان دا ورلڈ

کہانی شروع کرتے ہیں عطا الحق قاسمی صاحب  کے’’ ایوارڈز کا جنازہ کے عنوان سے لکھے گئے کالم سے: ‘‘اس وقت میرے سامنے یوم آزادی کے موقع پر دیئے گئے ایوارڈز کی تفصیل ہے۔ان میں سے تو کچھ وہ شہداء ہیں جنہوں نے اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے اپنی جان دے دی اور کچھ بیوروکریٹس ہیں جنہوں نے اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے لوگوں کی جان لے لی۔مجھے ان ایوارڈز کی تو بالکل سمجھ نہیں آئی کہ یہ سبھی تنخواہیں اور لمبی مراعات اور لمبے سیر سپاٹے کرنے والوں کو کس حوالے سے ایوارڈز سے نوازدیا گیا۔ چلیں اب اس تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھتے ہیں۔ بہت بڑے بڑے ایوارڈ صنعت کاروں اور کچھ بدنام زمانہ شخصیات کو عطا کئے گئے ہیں۔پاکستان سے باہر ایک بڑا ایوارڈ جس شخص کو دیا گیا وہ عمر فاروق ہیں۔ ان کا گھڑیوں کا کاروبار ہے اور ان کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے عمران خان سے توشہ خانے کی گھڑی خریدی تھی ،گریٹ! اگر اس ایوارڈ کا کسی ذریعے سے پہلے پتہ چل جاتا تو بہت سے لوگ عمران خان کے پاس پہنچ جاتے اور منہ مانگے دام پر ان سے گھڑی خریدتے!- میری خواہش ہے کہ ایوارڈ یافتگان کے ناموں کو چھوڑیں صرف اس کمیٹی کے ارکان کے نام شائع ہونا چاہئیں جو بھینگے ہیں اور ان کی بینائی پر انحصار کیاگیا۔ بیرون ملک مقیم عمر فاروق کو عمران کی گھڑی خریدنے پر تو یہ عزت دے دی گئی مگر جو لوگ پردیس میں بیٹھے پاکستان کی خدمت کر رہے ہیں۔ پاکستان کے ان سفیروں کو نظرانداز کیا گیا۔ بہرحال گزشتہ برس ایوارڈ ریوڑیوں کی طرح بانٹے گئے اب کے حقدار کو بھی محروم کر دیا گیا۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔
عارفہ صبح خان اور فاطمہ ردا غوری بھی اپنے اپنے انداز میں نوائے وقت میں لکھے گئے اپنے کالموں بالترتیب بعنوان :’’صدارتی ایوارڈز پر شدید رد عمل‘‘ اور ’’صدارتی ایوارڈز اندھیر نگری چوپٹ راج‘‘۔ میں ایوارڈز کہانی بتا چکی ہیں۔عارفہ صبح خان کا کہنا ہے کہ ان کی تیسری مرتبہ  نامزدگی ہوئی مگر حتمی لسٹ سے ان کا نام کٹ چکا تھا۔
دنیا میں اپنی نوعیت کے ایک واحد شخص امجد صدیقی ہیں۔ ان کو باقاعدہ پہلے ون ان ملینز اور بعد میں ون ان دی ورلڈ کا خطاب دیا گیا ہے۔ یہ 43سال سے ویل چیئر پر ہیں۔ سعودی عرب میں حادثے سے دوچار ہوئے۔ انکے جسم کا نوے فیصد حصہ مفلوج ہو چکا ہے۔ انہوں نے معذوری کو مجبوری نہیں بنایا بلکہ طاقت بنا لیا۔وہ دنیا کے کامیاب ترین انسانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ کچھ کر چکے اور کر رہے ہیں وہ کروڑوں عام انسان نہیں کر سکتے۔ یہ نوائے وقت سمیت کئی اخبارات میں کالم لکھتے رہے ہیں۔ بنیادی طور پر صحافی تھے۔ اخبارات کے نمائندہ رہے۔ پاکستان میں صحافیوں کوجو مشکلات پیش آتی ہیں ان کا سامان کیا۔ ایک مرتبہ کسی کی مرضی کی خبر نہ لگانے پر موت کے منہ میں جانے سے بمشکل بچے۔ ایک چھوٹے سے اخبار میں’’بھٹو زندہ ہے‘‘ کے عنوان سے کالم لکھ دیا۔ تو چْھپ چھپا کر پاکستان سے راہِ فرار اختیار کرنا پڑ گئی۔ ان کے اندربھی ہمیشہ ایک بھٹو زندہ رہا جو رواں برس دیئے گئے ایوارڈز کے بعد مر چکا ہے۔
امجد صدیقی اپنے بارے میں بتاتے ہیں:میں ایک قابل فخر محب وطن پاکستانی پیرا پلیجک سعودی عرب میں ٹریفک حادثہ کی وجہ سے 25دسمبر 1981ء سے شدید معذوری کی وجہ سے مستقل طور پر وہیل چیئر پر ہوں۔ ٹریفک حادثے کی وجہ سے میں90فیصد مفلوج ہو گیا لیکن الحمدللہ، میں اپنی معذوری کے ساتھ کامیابی سے اور آزادنہ طور پر  زندگی گزار رہا ہوں۔ میں نے معذوری کی بحالی اور تحقیقی مراکز کا دورہ کرنے کے لیے دنیا بھر میں اکیلے 52ممالک کا سفر کیا ہے اور میں نے متعدد ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ میں نے الحمدللہ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں معذور افراد کو گھروں اور ہسپتالوں سے نکال کر معاشرے کا باعزت اور ہنر مند شہری بنایا، میں نے کئی ممالک میں یوم پاکستان پر متعدد پریڈز کی قیادت کی اور ایک مشہور شخصیت اور امن کا سفیر بن کر ابھرا۔ میں نے اپنا جسم تحقیق کے لیے عطیہ کیا ابھی تک دنیا بھر میں کروڑوں لوگ پیراپلیجیک کا علاج ڈھونڈ رہے ہیں اور اس کوشش کے دوران میں نے30سے زائد سرجری کروائی ہیں جس میں سے کئی میں، میری زندگی خطرے میں تھی۔ میں کئی نئی ایجادات، آلات اور بائیو میڈیکل ٹیکنالوجیز کے ٹیسٹنگ مراحل کا حصہ رہا ہوں۔ جو بعد میں عوام کے سامنے متعارف کروائی گئیں اور لاکھوں لوگ اس سے مستفید ہوئے۔  میں نے عام لوگوں کے ساتھ مقابلے میں 22کلو میٹر کی میراتھن جیتی اور12کلومیٹر کی وہیل چیئر ریس میں کامیابی حاصل کی۔ جب میں عرب نیشنل بینک میں ملازمت کرتا تھا تو مجھے بہترین عملے کے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ 1993ء میں میں نے کاروباری دنیا میں قدم رکھا اور سعودی عرب اور دیگر ممالک کو لاکھوں ٹن چاول پاکستانی مصنوعات بر آمد کیں۔ 2005ء میں پاکستان میں مینو فیکچرنگ کی صنعتیں لگانا شروع کیں اور پاکستان میں لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ بیرونی ممالک کے تاجروں سے اپنی محنت کی کمائی میں سرمایہ کاری کروائی۔ میں نے اپنے دوستو ں کے ساتھ مل کر پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں مفت جدید پرائمری ہیلتھ کیئر یونٹس کے ساتھ ڈائیلاسز سینٹرز قائم کیے، حال ہی میں لاہور میں مکمل اپنے خرچے پر جدید طرز کا اپنے نیا ڈائیلاسز سنٹر قائم کیا ہے جس میں 100فیصد غریب لوگوں کا دوائیوں سمیت مفت علاج ہوتا ہے۔دنیا بھر سے مجھے سینکڑوں ایوارڈز، ٹرافیاں،شیلڈز اور اعزازات ملے۔2017ء میں پرائیوٹ تنظیموں کی طرف سے پاکستان ایکسیلنس ایوارڈ اور2023ء میں ستارہ پاکستان کا ایوارڈ ملا۔سعودی عرب میں’’پائنیر اینڈ ٹیلنٹڈ‘‘ فورم کی طرف سے ایوارڈ حاصل کرنے والا پہلا اور امریکہ سے ون ان ملینز کا ایوارڈ حاصل کرنے والا قابل فخر محب وطن پاکستانی ہوں جو اس ملک سے بے پناہ محبت کی وجہ سے ترقی یافتہ ملکوں کو چھوڑ کر مستقل طور پر اس ملک اور عوام کی خدمت کے لیے وطن واپس آ چکا ہوں۔میں نے اردو اور انگریزی زبان میں ایک منفرد اور حوصلہ افزا کتاب’’درد کا سفر‘‘ لکھی ہے، جو میری زندگی کے بارے میں الہام اور بصیرت سے بھری ہوئی ہے جسے دنیا بھر سے زبردست پذیرائی اور شہرت ملی ہے ’’درد کا سفر‘‘ جو مایوس زندگی سے تنگ لوگوں کو جینا سکھاتی ہے۔ ناکام کو کامیاب کرتی ہے۔ ہر ناممکن کو ممکن بناتی ہے اور بھی بہت کچھ ہے۔ جسے پڑھ کر لوگوں کی زندگی بدل جاتی ہے وہ خوشحال اور کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں‘‘۔
اب آتے ہیں ایوارڈز کی طرف: پاکستان میں معذور افراد کو ایوارڈز سے دور رکھا گیا تھا۔ اب کے ایسے معذور افراد کے لیے ایوارڈ کے اجرا کی منظوری ہوئی ہے جوملک و قوم اور انسانیت کے لیے نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔امجد صدیقی کی ایوارڈ کے لیے نامزدگی ہوئی۔ پانچ کمیٹیوں نے منظوری دی۔ نام فائنل ہو گیا۔ لسٹ وزیر اعظم ہاؤس گئی۔ ایوانِ صدر سے باہر آئی تو ان کے نام کے نیچے ریڈ لائن لگی تھی۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی پیرا پلیجک کو ایوارڈ دیا جا رہا تھا جو گویا ان کے ہاتھ میں پکڑا کر کھینچ لیا گیا۔ وہ کہتے ہیں معذور ہونے کی وجہ سے میرا نام نکالا گیا معذور افراد  سے اپنے وطن میں آخر اتنی نفرت کیوں  ؟

فضل حسین اعوان....شفق

ای پیپر دی نیشن