ہفتہ‘8 ربیع الثانی 1446ھ ‘ 12 اکتوبر 2024ء

آئندہ 15 سے 20 روز میں سیلز ٹیکس چوری کرنے والوں کے خلاف بڑا کریک ڈاؤن کیا جائے گا،گرفتاریاں ہونگی، وزیر خزانہ محمد  اورنگ زیب۔
چور چور ہوتا ہے وہ سو کی چوری کرے ہزار کی کرے، وہ بجلی بل میں چوری کرے وہ سیلز ٹیکس کی چوری کرے اس کو کسی بھی طرح کوئی رعایت کیسے مل سکتی ہے۔کسی گھر سے چوری ہو جائے، کسی کی بائیک چھین لی جائے، کسی کی گاڑی چرا لی جائے ،کسی کی جائیداد اڑا لی جائے۔متاثرہ شخص اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتا جب تک مسروقہ مال برآمد نہ کروا لے۔ہمارے محترم وزیر خزانہ صاحب نے سیلز ٹیکس چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے 15 بیس دن دے دیئے۔توانائی کے وزیر اویس الغاری کی طرف سے بجلی چوروں کو ایک ڈیڈ لائن دی گئی تھی کہ 23 اپریل کے بعد کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جائے گی۔گویا 23 اپریل تک ان کو رعایت دی گئی تھی۔ ڈیڈ لائن گزرگئی تو بھی چوری جاری و ساری ہے۔وزیر خزانہ نے کوئی ڈیڈ لائن نہیں دی بلکہ 15 بیس روز کی بات کی ہے۔شاید انہوں نے یہ دن صرف اس لئے دیئے ہوں کہ سیلز ٹیکس چوری کرنے والے راہ راست پر آجائیں اور وہ مزید ہاتھ مارنے سے گریز کریں۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سیلز ٹیکس چوری کرنے والے ریکوری سے بچنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے لگیں۔ویسے بھی ایسے چوروں کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں۔وزیر خزانہ اورنگزیب صاحب کا زیادہ عرصہ ملک سے باہر تقریباً ٹیکس اورکرپشن فری ممالک میں گزرا ہے۔پاکستان میں چوروں کے لمبے ہاتھ ناپنے کے لیے ان کو کچھ عرصہ درکار ہوگا۔شاید 15 سے 20 دن میں ان کو چوروں کے لمبے ہاتھوں کا کچھ کچھ اندازہ ہو جائے۔
٭…٭…٭
نابینا افراد کے ساتھ مذاکرات کامیاب، معاہدہ طے۔کاپی عدالت میں پیش۔
لاہور میں نابینا افراد کی طرف سے احتجاج کیا گیا، مظاہرہ کیا گیا، دھرنا دیا گیا۔ یہ سرکاری ملازمتوں کا مطالبہ کر رہے تھے۔ایک طرف ان کی طرف سے ملازمتوں کے لیے احتجاج کیا جا رہا تھا۔ دوسری طرف انہوں نے عدالت سے بھی رجوع کر رکھا تھا۔ایک موقع پر تو پولیس نے ان پر چڑھائی کر دی اور ان بیچاروں کی دوڑیں لگ گئیں۔کوئی ادھر دوڑا کوئی اْدھر دوڑا۔ کوئی اکیلا دوڑا کہیں دو ایک ساتھ دوڑے کہیں۔ کچھ تین تین چار چار کی ٹولیوں میں بھاگے۔مگر پھر پلٹے جھپٹے اور احتجاج شروع کر دیا۔حکومت نے کئی مرتبہ کہا کہ آپ کے مطالبات مان لیتے ہیں احتجاج ختم کر دیں لیکن یہ گارنٹی چاہتے تھے۔ حکومت کے ساتھ تعاون بھی کر رہے تھے۔ان کو چیئرنگ کراس سے دھرنا باغ جناح لے جانے کی تجویز دی گئی تو یہ مان گئے۔باغ جناح میں سال بھی بیٹھے رہتے تو حکومت کو کیا فرق پڑنا تھا۔تاہم حکومت نے فراخ دلی مظاہرہ کرتے ہوئے  وہاں جا کر بھی ان کے ساتھ مذاکرات کئے اور کہا گیا کہ دسمبر میں پکا ہے پتھر پر لکیر ہے۔ آپ کے مطالبات پورے کر لیے جائیں گے۔اس پر ان لوگوں کی طرف سے خوشی سے دندیاں نکالنے کیساتھ غصّے سے منہ پر جماعت اسلامی کی طرح ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا گیا  اگر ہمارے مطالبات دسمبر میں پورے نہ ہوئے تو دیکھ لیں گے۔نابیناؤں کی کرکٹ ٹیم میں سارے کے سارے ایسے کھلاڑی نہیں ہوتے جن کو بالکل بھی نظر نہیں آتا بلکہ ان میں ایسے بھی ہیں جن کی نظر کافی کمزور ہوتی ہے  ان کو دھندلا سے تھوڑا بہتر نظر ضرور آرہا ہوتا ہے۔گیند چونکہ فٹ بال جتنی اور ساتھ چھن چھن بھی کر رہی ہوتی ہے چنانچہ ایسے نابینا کرکٹر  چھکے پہ چھکا چوکے پہ چوکا لگا کر سینچری مکمل کر لیتے ہیں۔احتجاج کرنے والوں میں چوکے چھکے لگانے والے کتنے تھے اس بارے میں کچھ پتہ نہیں۔
٭…٭…٭
راولپنڈی اسلام آباد میں پانچ دن کے لیے ڈھابے، کیفے ریسٹورنٹس بند۔
حکومت کی طرف سے یہ فیصلہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر حفاظتی نقطہ نظر سے کیا گیا ہے۔اسلام آباد، راولپنڈی میں لاکھوں نہیں تو ہزار ہا لوگ ایسے ضرور ہیں جو ڈھابے سے چھوٹے موٹے ہوٹل سے ریسٹورنٹ یا کیفے سے کھانا کھاتے ہیں۔پانچ دن ان کے کھانے کا بندوبست کیسے ہوگا کہاں سے ہوگا۔پانچ دن کا تو وہ سٹاک بھی جمع کر کے نہیں رکھ سکتے۔کیا ہنگامی بنیادوں پر بھنے ہوئے چنے یا اس طرح کی اشیاء خورو نوش پانچ دن کے لیے جمع کر لیں۔ڈیرے مزارات خانقاہیں بھی ان دو شہروں میں اتنی زیادہ نہیں ہیں جہاں سے ان کو دو تین وقت کا کھانا مل سکے۔حکومت دو میں سے ایک کام ضرور کر سکتی ہے۔پہلا یہ کہ ان کے لیے عارضی لنگر خانے قائم کر دیئے جائیں۔ دوسرے ملازمین کو 10 چھٹیاں دے دی جائیں۔ پانچ ان کے گھر جانے کے سفر کے لیے اور پانچ ایس سی او اجلاس کے دوران کی۔
 ایک سب سے آسان حل یہ ہے کہ حکومت کو سات ارب ڈالر آئی ایم ایف سے مل رہے ہیں۔27 ارب ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ حکومت اسلام آباد میں ان لوگوں کو جو ڈھابوں ریسٹورنٹوں کیفوں سے کھانا کھاتے ہیں، چار اور پانچ ستارہ ہوٹلوں سے تین وقت کے کھانے کے کارڈ جاری کر دے۔ہوٹلوں ریسٹورنٹوں کی سکیورٹی مشکل ہی کتنی ہے۔بہرحال حکومتی سقراطوں اور بقراطوں کی طرف سے بڑا سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کیا گیا ہوگا۔
٭…٭…٭
ماں کے ساتھ رہنے والے بچوں کا خرچہ سالانہ 10 فیصد بڑھانے کی درخواست منظور۔ 
مالک مکان دکان اور کرایہ دار کے مابین ہونے والے معاہدے میں سالانہ 10 فیصدکرائے میں اضافے کی شق شامل ہوتی ہے۔حکومت کی طرف سے تنخواہوں میں اضافہ 10 سے 20 اور 25 فیصد تک سالانہ کیا جاتا ہے۔پرائیویٹ سیکٹر میں کہیں مالکان سالانہ انکریمنٹ سے احتراز کرتے ہیں کئی اپنے کاروبار کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے فراخ دلی کا مظاہرہ کر کے سال میں دو دو تین تین بار انکریمنٹ کے ساتھ عید جیسے خوشی کے مواقع پر بونس بھی دیتے ہیں۔ہمارے ہاں المیات میں سے جوڑوں کے مابین علیحدگی بھی ایک المیہ ہے۔خصوصی طور پر ایسے لوگ جن کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوتے ہیں۔طلاق اور علیحدگی سے ان بچوں کا مستقبل سوالیہ نشان بنا ہوتا ہے۔بعض اوقات تو ایک لمحے کی خطا عمر بھر کی سزا بن جاتی ہے۔لیکن کمان سے نکلے تیر کی طرح، زبان سے نکلے الفاظ کی طرح واپسی ممکن نہیں ہوتی۔غلط فہمی کی بنیاد پر علیحدگیاں ہوتی ہیں۔ایسے تنازعات جن میں جوڑے میں سے کسی ایک کا بھی قصور نہیں ہوتا وہ بھی ان کے گلے پڑ جاتے ہیں۔ضد اور انا  آڑے آ  جاتی ہے۔خمیازہ اولادوں کو بھگتنا پڑ جاتا ہے۔کئی دوسری شادی کے لیے علیحدگی اختیار کر لیتے ہیں بچوں کے بارے میں نہیں سوچتے۔ایسا بھی دیکھا گیا کہ عدالت میں خلع کے لیے فریقین پیش ہوئے بچوں کی آہ و بکا سن کر دوبارہ سے گھر بسانے پر تیار ہو گئے۔ایک شخص نے اپنے بچوں والی بیوی سے علیحدگی اختیار کر کے بچوں والی خاتون سے شادی کر لی شادی کر لی۔ ایک روز اس شخص کو اپنا آٹھ نو سال کا بیٹا اسی محلے سے گزرتا نظر آیا۔یہ اسے اپنے نئی بیوی والے گھر لے آیا۔اسے کھانا کھلایا اس کے بعد اسے گلاس میں دودھ دیا۔ اس نے آدھا دودھ پی کر گلاس یہ کہتے ہوئے باپ کی طرف بڑھا دیا کہ پاپا یہ آپ پی لیں۔جب کہ نئی بیوی کے بچوں نے ا یسا کبھی نہیں کہا تھا۔بس یہ ایک فقرہ اس کی سوچ بدل گیا اور یہ شخص نئی بیوی کے گھر سے پہلی والی کے گھر میں شفٹ ہو گیا۔

ای پیپر دی نیشن