وزیراعظم کی قوم کو پانچ آئی پی پیز کے معاہدے ختم کرنے کی نوید

وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ پانچ نجی پاور کمپنیوں (آئی پی پیز) سے کئے گئے معاہدے انکی باہمی رضامندی سے ختم کر دیئے گئے ہیں۔ ان آئی پی پیز نے قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر مقدم رکھا۔ یہ معاہدے ختم ہونے سے سرکاری خزانے کو 411‘ ارب روپے کی بچت ہوگی۔ گزشتہ روز اپنی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ معیشت کی بہتری کیلئے تیزی سے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ہماری معیشت بتدریج استحکام کی جانب گامزن ہے اور ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے جو آٹھ ارب 80 کروڑ ڈالرز سے تجاوز کر گئی ہیں۔ یہ تمام سہہ ماہی ترسیلات زر کے مقابلہ میں ایک ریکارڈ ہے جس کیلئے ہم عظیم پاکستانی تارکین وطن کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو دن رات محنت کرکے اپنے رزق حلال کی کمائی پاکستان بھیجتے ہیں۔ یہ اس امر کی تصدیق ہے کہ ہماری معیشت اب آگے بڑھ رہی ہے۔ 
شہبازشریف کے بقول عام آدمی نے مہنگائی‘ مہنگی پالیسی شرح سود اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے سمیت بے پناہ مشکلات کا سامنا کیا ہے۔ انہوں نے صبر و تحمل سے یہ مشکل وقت گزارا۔ اب بھی ایسا نہیں کہ مشکلات مکمل ختم ہو گئی ہیں‘ تاہم آہستہ آہستہ بہتری آرہی ہے۔ قوم کی قربانیاں لائق تحسین ہیں۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ موسم گرما میں پچاس ارب روپے سے 200 یونٹ ماہانہ استعمال کرنے والے والے صارفین بجلی کو ریلیف دیا گیا اور پنجاب حکومت نے بھی دو ماہ کیلئے بجلی کے بلوں میں مجموعی پچاس ارب روپے سے زیادہ کا ریلیف دیا۔ انکے بقول وفاقی اور صوبائی حکومتیں عوام کو درپیش مسائل سے نہ صرف پوری طرح آگاہ ہیں بلکہ انہیں ریلیف دینے کیلئے ضروری اقدامات بھی اٹھا رہی ہیں۔ وہ بغیر کسی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے یہ کہیں گے کہ ماضی میں ایک سنگدل حکمران آیا جس نے یہ کہا کہ مہنگائی سے اس کا کوئی سروکار نہیں ہے۔ انہوں نے باور کرایا کہ موجودہ حکومت عوام کی نمائندہ حکومت ہے اور ہمیں عوام کو درپیش مسائل کا مکمل ادراک ہے۔ ان مسائل کے حل کیلئے جو بھی ممکن ہو سکتا ہے‘ ہم وہ اقدامات اٹھا رہے ہیں۔ آج مہنگائی کی شرح 32 فیصد سے کم ہو کر سنگل ڈیجٹ میں چھ عشاریہ سات فیصد تک آگئی ہے۔ 
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر دور حکومت میں حکومتی بے تدبیریوں اور ناقص پالیسیوں کے باعث عوام کے غربت‘ مہنگائی اور روٹی روزگار کے مسائل میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا ہے۔ قیام پاکستان کے دس سال بعد ہی بیل آئوٹ پیکیج کیلئے آئی ایم ایف کے پاس جانا انہی حکومتی بے تدبیریوں کا شاخسانہ ہے جبکہ آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے بعد آج تک ہماری معیشت سنبھل نہیں پائی اور آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرتے کرتے عوام کو عملاً زندہ درگور کر دیا گیا ہے جو نانِ جویں کے علاوہ سازگار ماحول میں سانس لینے کو بھی ترس رہے ہیں۔ 
یہ امر واقع ہے کہ قدرت نے ہمیں اس دھرتی پر اور زیرزمین وسائل سے مالامال کر رکھا ہے جنہیں بروئے کار لانے کی اچھی منصوبہ بندی کی گئی ہوتی تو ہم بھی آج ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوتے مگر نہ صرف ان وسائل کو دانشمندی کے ساتھ استعمال نہ کیا گیا بلکہ ادارہ جاتی بے تدبیریوں نے ان وسائل کو ضائع کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگر بانی پاکستان قائداعظم کے ملکی ترقی کے ویژن کے مطابق ملک میں موجود آبی وسائل کو ٹھوس منصوبہ بندی کے تحت ڈیمز کی تعمیر کیلئے بروئے کار لایا جاتا تو آج ہم توانائی کے جس سنگین بحران کا سامنا کر رہے ہیں‘ اسکی کبھی نوبت ہی نہ آتی اور ہم اپنے ہائیڈل پراجیکٹس سے اپنی ضرورت کی بجلی پیدا کرنے کے علاوہ وافر بجلی برآمد بھی کر رہے ہوتے مگر اس معاملہ میں ہمارے منصوبہ سازوں کی بے تدبیریوں کے علاوہ پاکستان کی ترقی کے مخالف اندرونی اور بیرونی عناصر نے بھی علاقائی بنیادوں پر منافرت کی سیاست کو ہوا دی اور بطور خاص کالاباغ ڈیم کی تعیمر ناممکن بنا دی جس کیلئے مناسب جگہ کا تعین بھی خود بانی پاکستان قائداعظم نے کیا تھا۔ 
پاکستان کی ترقی کے سفر کو روکنا بھارت کے تو ایجنڈے میں شامل تھا مگر اسکے ایماء پر ہمارے مفاد پرست سیاست دانوں نے بھی ہائیڈل بجلی کی پیداوار کے آگے رکاوٹیں کھڑی کیں۔ اسی مفاد پرستانہ حکمت عملی کا نتیجہ مہنگی تھرمل بجلی کے نجی پلانٹس کی صورت میں برآمد ہوا جس کیلئے بے نظیر بھٹو سے نوازشریف تک اور پھر عمران خان کے دور میں بھی اپنوں کو نوازنے کیلئے تھرمل پاور پلانٹس کمپنیوں کے ساتھ بے سروپا، بے سود اور انتہائی مہنگے معاہدے کئے گئے جو ملک کی معیشت کو بھی آکاس بیل کی طرح چمٹ گئے اور مہنگی بجلی کے ذریعے عوام کا بھرکس نکالنے میں بھی ان آئی پی پیز نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ چنانچہ عوام نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق سڑکوں پر آکر احتجاج کا سلسلہ شروع کیا۔ آزاد کشمیر میں تو اس عوامی احتجاج کے فوری اور مثبت اثرات مرتب ہوئے اور حکومت عوامی مطالبات کے مطابق انہیں ریلیف دینے پر مجبور ہوگئی تاہم پاکستان میں دوعملی کی سیاست کے باعث عوامی تحریک زیادہ موثر ثابت نہ ہوئی۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے ہمت باندھی اور مہنگی بجلی‘ آئی پی پیز اور ٹیکسوں کی بھرمار کیخلاف عوامی تحریک کو منظم کیا اور اسلام آباد میں دھرنے کا آغاز کردیا۔ 
اسی دھرنے کے نتیجہ میں وفاقی اور پنجاب حکومت کی جانب سے دو سو سے پانچ سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کیلئے ریلیف پیکیج وضع کئے گئے۔ اگرچہ یہ پیکیج اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف تھے تاہم اس سے عوام کو کچھ نہ کچھ ریلیف ملنے کا احساس تو ہوا۔ اسی تحریک کے باعث آئی پی پیز کا ایشو بھی سامنے آیا جس کی تفصیلات نگران حکومت کے وزیر توانائی گوہر اعجاز نے متعدد پریس کانفرنسوں کے ذریعے عوام کے سامنے پیش کیں تو آئی پی پیز کی لوٹ مار کے اصل حقائق جان کر عوام حیرت زدہ ہی نہیں‘ مشتعل بھی ہوئے کہ کس طرح حکمران طبقات کی جانب سے قومی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے جبکہ آئی پی پیز کو دی گئی اربوں ڈالر کی رقوم سے اب تک تین چار بڑے ہائیڈل پاور پراجیکٹس قائم ہو سکتے تھے جو عوام کو سستی بجلی فراہم کر رہے ہوتے۔ 
جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم پر شروع ہونے والے عوامی احتجاج کے باعث ہی آئی پی پیز کے مالکان حکومت کے ساتھ اپنے معاہدوں پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہوئے اور آج وزیراعظم شہبازشریف ان میں سے پانچ آئی پی پیز کی جانب سے معاہدے ختم کرنے کی عوام کو خوشخبری سنانے کے قابل ہوئے ہیں۔ اگر حکومت اب بھی ٹھوس پالیسی طے کرلے تو بجلی پیدا کئے بغیر اربوں ڈالر وصول کرنے والی دیگر نجی پاور کمپنیوں کے معاہدے بھی ختم ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح حکومت فی الواقع عوام کو بجلی کی مد میں ریلیف دینا چاہتی ہے تو سرکاری ملازمین اور دوسرے مراعات یافتہ طبقات کو دی جانے والی بجلی اور پٹرول کی مفت سہولت بھی واپس لے لی جائے جس کا اب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم کی جانب سے تقاضا بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ 
اگر حکومت ملک اور عوام کی بہتری کی خاطر ایسی اصلاحات کرکے اور عملی اقدامات اٹھا کر ایک جمہوری فلاحی معاشرے کی بنیاد رکھ دیتی ہے تو بلاشبہ یہ اس کا کریڈٹ ہوگا اور اسے عوام کا مزید اعتماد بھی حاصل ہو جائیگا۔

ای پیپر دی نیشن