عترت جعفری
شنگھائی تعاون تنظیم کے زیر اہتمام رکن ممالک کی کونسل کا سربراہی اجلاس 15 اور 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں ہو رہا ہے ۔جس میں پاکستان روس قازقستان ، تاجکستان ، ازبکستان، بیلا روس اور ایران کے سربراہان حکومت ، مملکت کے عہدیدار اور وفود شریک ہوں گے۔پاکستان اس بار اس سمٹ اجلاس کا میزبان ملک ہے ۔اس سے پہلے اسلام آباد میں شنگھائی تعاون کونسل کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہو چکا ہے اور اس کانفرنس کی تیاری کے سلسلے میں بہت سے دوسرے اجلاس بھی منعقد ہوتے رہے ہیں۔پاکستان شنگھائی تعاون کونسل کی سمٹ کو ملک میں ایک بڑی معاشی پیش رفت کیلئے عملی صورت دینے کی تیاری کر رہا ہے۔ مختلف وزارتوں میں اس سلسلے میں ا جلاس ہوتے رہے ہیں تاکہ کانفرنس کے سمٹ اجلاس میں اعلی سطح کے ان وفود کے سامنے علاقائی کنیکٹیویٹی ، تجارت میں اضافہ ، سیاسی اور سفارتی تعاون کو بڑھانے کے لیے پاکستان کے نقطہ نظر اور وژن کو پیش کیا جا سکے۔اس کانفرنس کی ایک اہم بات یہ ہے کہ بھارت کے وزیر خارجہ کی سربراہی میں ایک وفد پاکستان ا ٓرہا ہے،2015 کے بعد یہ پہلا موقع ہوگا کہ بھارت کی طرف سے کوئی اعلی سطح کی شخصیت پاکستان آئے گی ، شنگھائی تعاون کونسل اعلی سطح کا بین الاقوامی فورم ہے جو علاقائی اور بین الاقوامی تعاون کے ساتھ ساتھ دوسری اہم تنظیموں اور اداروں کے ساتھ اپنے روابط کو بڑھا رہا ہے،پاکستان جو روایتی طور پر تجارت معیشت اور برامدات کے حوالے سے زیادہ تر انحصار امریکہ اور یورپی منڈیوں پر کرتا رہا ہے،لیکن اب ریاست کی پالیسی میں کافی تبدیلی رونما ہو رہی ہے اور اب پاکستان تجارت کے لئے افریقہ کی جانب بھی دیکھ رہا ہے اور شنگھائی تعاون کونسل میں وہ ممالک شامل ہیں جن کے ساتھ معاشی اور سفارتی روابط میں اضافہ بہت اہم ہے ، پاکستان جیسے اپنی برامدات کو بڑھانا ہے اس کے لئے شنگھائی تعاون کونسل کے رکن ممالک بہت اہمیت رکھتے ہیں،عمومی طور پر شنگھائی تعاون کونسل سیاسی معاشی دفاعی اور سکیورٹی ایشوز پر فوکس کرتی ہے،اور یہ کونسل آف ہیڈز آف سٹیٹس اور کونسل آف گورنمنٹ سے اپنی رہنمائی لیتی ہے،اس کا آغاز 15 جون 2001 میں ہوا تھا،2002 شنگھائی تعاون کونسل کے ہیڈ اف سٹیٹس کے اجلاس میں تنظیم کے چارٹر پر دستخط کیے گئے اور اس کے جو مقاصد بیان کیے گئے تھے ان میں کہا گیا ہے کہ اس تنظیم کے ممبر ممالک کے درمیان باہمی اعتماد دوستی اور اچھے پڑوسیوں والے تعلقات کو قائم کرنا ہے،اس تنظیم کا سب سے بڑا فیصلہ کرنے والا فورم کونسل آف ہیڈ آف سٹیٹ ہے جس کا سال میں ایک بار اجلاس ہوتا ہے اور یہ تنظیم کے ہم ایشوز پر فیصلے کرتا ہے،اسی طرح ہیڈ آف گورنمنٹ کا اجلاس بھی سال میں ایک بار ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان جب سی پیک کے دوسرے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے اس کانفرنس میں شرکت کیلئے برادر ملک چین کے وزیراعظم پاکستان پہنچ رہے ہیں ، کانفرنس کے دوران پاکستان میںسی پیک کے دوسرے مرحلہ کے حوالے سے متعد د معاہدے ہوں گے ۔یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ روس بھی علاقائی رابطہ کو بڑھانے اور کنیکٹیوٹی پیدا کرنے کے لیے مختلف منصوبوں اور کاریڈورز پہ کام کر رہا ہے،پاکستان کی کوشش رہی ہے کہ وہ سی پیک اور دوسرے علاقائی کوریڈورزکے ذریعے روس کے ان منصوبوں کے ساتھ ایک لنک پیدا کرے،شنگھائی تعاون کونسل کا اجلاس پاکستان کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ نہ صرف اس کے رکن ممالک کے ساتھ رابطوں کو بڑھائے بلکہ اپنی تجارت کو بڑھانے کے لیے اس موقع کو استعمال کریں،پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی اور سیاسی تعلقات کی ایک تاریخ ہے جو کبھی بھی خوشگوار مرحلے میں داخل نہیں ہوئے ہیں اس کی وجہ دراصل تنازعہ کشمیر ہے جس کے باعث پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ اتا رہا ہے پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ہر فورم پر آواز بلند کرتا رہا ہے اور تاکہ دونوں ممالک کے درمیان اس دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کے بعد تعلقات کو معمول کی سطح پر لایا جا سکے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت ڈیڑھ ارب آبادی کا ملک ہے اور اس کی مارکیٹ پاکستانی برآمدات کے لیے بہت پرکشش حیثیت رکھتی ہے اس کے ساتھ ساتھ بھارت کے لیے پاکستان کے زمینی راستے بہت اہمیت رکھتے ہیں جو اسے سینٹرل ایشیا اور روس کے ساتھ براہ راست منسلک کر سکتے ہیں تاہم تعلقات کا معمول پر آنے کا انحصار دونوں ملکوں کے درمیان تنازعہ کشمیر سمیت دیگر تنازعات کے حل میں مضمر ہے ۔بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر اسلام آباد آرہے ہیں،اگرچہ نئی دہلی سے جاری ہونے والی ایک وضاحت میں کہا گیا ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ کا یہ دورہ کثیر القومی بنیاد پر ہے اس میں دو طرفہ امور پر بات چیت نہیں ہوگی تاہم سب جانتے ہیں کہ جب سربراہان حکومت جمع ہوتے ہیں یا ہائی پروفائل کوئی میٹنگ ہوتی ہے تو اس میں دیگر امور بھی از خود زیر بحث آ ہی جاتے ہیں۔
ایک ایسے مرحلے پر جب پاکستان شنگھائی تنظیم کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے جا رہا ہے ، اس وقت صدر پاکستان ترکمانستان میں دورے پر ہیں جہاں روس کے صدر پیوٹن اور صدر مملکت آصف علی زرداری کے مابین بھی ملاقات ہوئی ،جس میں بہت سے امور پر بات چیت ہوئی ،ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد میں صدرِ مملکت اصف علی زرداری کی روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ غیر رسمی ملاقات ہوئی ہے۔یہ ملاقات اشک آباد میں بین الاقوامی فورم کی سائیڈ لائنز پر ہوئی۔اس موقع پر دونوں صدور نے دو طرفہ تعلقات مزید مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔صدرِمملکت آصف علی زرداری اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایک دوسرے کے لیے نیک خواہشات اور خوش گوار جملوں کا تبادلہ بھی کیا۔اس کانفرنس میں متعدد دوسرے ممالک کے نمائندے بھی موجود ہیں،اور انہی ممالک میں سے بیشتر نے بعد ازاںشنگھائی تعاون کونسل کے اجلاس میں شریک ہونا ہے،یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری کی اشک آباد میں مصروفیات شنگھائی تعاون کونسل کے اجلاس کو ثمر آور بنانے کیلئے ایک اہم موڑ ثابت ہوں گی۔پاکستان میں شنگھائی تعاون کونسل کے اجلاس کی تیاری گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے،اور ماہرین کو اس بات پر یقین ہے کہ شنگھائی تعاون کونسل کا اجلاس ملک کی بین الاقوامی سفارسی ساک میں اضافے کا باعث بنے گا،اور بعض حلقوں کی طرف سے سفارتی تنہائی کے تاثر کو پھیلانے کی کوششوں کا سد باب ہوگا۔پاکستان جو ابھی آئی ایم ایف کے ایک نئے پروگرام میں شامل ہوا ہے اس کے لیے آئندہ 37 ماہ بہت اہمیت رکھتے ہیں،وزیراعظم ہوں وزیر خزانہ ہوں یا دیگر وزراء ہوں وہ تواتر کے ساتھ اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ ٓائندہ 37 ماہ پاکستان کے لیے معاشی طور پر بہت اہمیت کے عمل ہوں گے،پاکستان نے اگر ائی ایم ایف کے اس پروگرام کو اخری بنانا ہے تو اس سے آئندہ تین سال کے اندر چند اقدامات لازمی کرنا ہوں گے،جن میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو بڑھانا اور پاکستان کی برآمدات کو کم سے کم وقت میں مراحل طے کرتے ہوئے 100 ارب ڈالر پر لے جانا ہے،اس اجلاس کے کامیاب انعقاد کے بعد پاکستان کے لیے ان ممالک کے ساتھ معاشی تعاون کو بڑھانے کے نئے راستے کھلیں گے،دنیا میں آج کا کاروبار اب حکومتوں سے صرف یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ ایسی پالیسیاں بنائیں جس سے پرائیویٹ بزنس پنپ سکیں اور بزنس سے بزنس کے ساتھ ربط کے مواقع پیدا ہوں،اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو قابل عمل منصوبوں اور خاص طور پر انرجی کے حوالے سے چیزوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔
امید ہے کہ پاکستان اور ترکمانستان کے درمیان زیر التواء گیس پائپ لائن منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے راہیں کھلیں گی،اور ان ممالک کے درمیان سیاسی روابط کے ساتھ ساتھ معاشی تعلقات اور زمینی راستے سے ایک دوسرے سے منسلک ہو جانے میں مدد ملے گی ، اس کانفرنس کی ایک اہم بات یہ ہے نومنتخب ایرانی صدر پہلے بار اس کانفرنس میں شریک ہونے کے لئے اسلام آباد پہنچیں گے۔