تیسری جنگِ عظیم کی طرف بڑھتے قدم

ثا بت ہو گیاکہ مسلمانوں کا خون بہت سستا ہے جس کا دل چا ہتا ہے، پانی کی طرح بہا دیتا ہے۔ کشمیر لہو لہو ہے۔ ہر روز کشمیری گاجر کی طرح کاٹ کر پھینک دیئے جاتے ہیں۔ ایک سال سے فلسطین میں ہزاروں مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہا دی گئیں۔ فلسطین کو مکمل طور پر کھنڈر بنا دیا گیا۔ لیکن سوائے پولیو والوں کے ، کسی کی آنکھ نہیں کھُلی۔ نائن الیون کے نام پر جو بر بریت مچائی گئی۔ وہ کسی قیامت سے کم نہیں تھی۔ افغانستا ن کو تہس نہس کردیا گیا۔ عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ شام میں خون کی ہُولی کھیلی گئی۔ یمن کی وادیوں میں خون بہایا گیا۔ لبنان اور مصر میں غدر مچایا گیا۔ پاکستان میں ان گنت ہلاکتیں ہوئیں۔ ڈرون حملے کیئے گئے۔ ایمل کانسی، خالدشیخ، ایمن الظواہری، مُلّا عمر ، اسامہ بن لادن، یاسر عرفات، معمر قذافی، صدام حسین جیسے لیڈروں کو عبرتناک مو ت دی گئی۔ عافیہ صدیقی آج بھی بربریت کا نشانہ ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا گیا۔ وہ رونگھٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہے۔ اس سے پہلے بو سنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی۔ خلیج کی جنگ میں انھی دنوں 1990ء میں مسلمان ممالک کو لڑایا گیا۔ کویت اورسعودی عرب نے امریکہ سے مدد مانگی۔ ایران اور سعودی عرب میں نفرتوں کے بیج بوئے گئے۔ ایران عراق جنگ مسلم اُمہ کے منہ پر کاری طماچہ ہے۔ دنیا کے 210ممالک میں سے57  اسلامی ممالک ہیں۔ آٹھ ایٹمی ممالک میں سے پاکستان اور ایران ایٹمی طاقت ہیں۔ 1998 ء میں پاکستان نے چاغی کے مقام پر ایٹمی دھماکہ کیا تھا۔ ایران کے پاس بھی ایٹمی ہتھیار ہیں اور تقریباً آٹھ لاکھ فوج ہے جبکہ اسرائیل کے پاس ڈ یڑھ لاکھ فوج ہے۔ 57 اسلامی ممالک 117اسلامی ممالک دنیا کی امیر ترین ریا ستیں ہیں لیکن جب کسی مسلم ملک پر حملہ ہوتا ہے تو سب منہ لپیٹ کر سوئے رہتے ہیں۔جب کسی اسلامی ملک پر حملہ ہوتا ہے تو او آئی سی کچھ نہیں کرتی۔ او آئی سی کے عہدیدار جہازوں پر چڑھ کر آتے ہیں۔ بڑے بڑے ہو ٹلوں میں مزے کرتے ہیں۔ دو تین اجلاسوں میں روایتی اور رٹی رٹائی تقریریں کرتے ہیں۔ پھر کھا پی کر اور ڈکار مار کر چلے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کا اپنا کردار نہایت شرمناک اور کٹھ پتلوں والا ہے۔ جس انسان ، حکمران یا قوم میں غیرت نہ ہو، اُس کی کو ئی اوقات نہیں ہوتی۔ ذلت ان کا مقدر بنتی ہے۔ قدم قدم پر ذلیل و خوار ہوتے ہیں۔ کوئی انھیں منہ نہیں لگاتا۔ فلسطین میں جو ظلم، تشدد، بربریت اور خونریزی جاری ہے۔ پچھلے سات ماہ سے یہی اعداد شمار دے رہے ہیں کہ چالیس ہزار فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف غزہ میں لاکھوں فلسطینی شہید ہو گئے ہیں۔ فلسطین میں امداد تک نہیں پہنچائی جا رہی لیکن دردناک ہنسی آتی ہے کہ پولیو ٹیم کو قطرے پلانے کے لیے دو دن کے لیے جنگ بندی کر دی گئی یعنی فلسطینی بچوں کا ہزاروں کی تعداد میں مر جانا کو ئی اہمیت نہیں رکھتا مگر پولیو کے قطرے پلانا ضروری ہے۔ اتنا بھیانک مذاق مسلمانوں کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ اقوام متحدہ اورسلامتی کونسل نے ثابت کر دیا کہ وہ مذہب کے نام پر امداد دیتی یا انصاف کرتی ہیں۔ اگر مسلمانوں کے ساتھ بربریت یا جنگ ہو تو جائز ہے لیکن اسرائیل امریکہ انگلینڈ فرانس یا کسی یو رپی ملک کے با شندے کو کوئی گا لی بھی دیدے تو ان کی انسانیت جاگ جاتی ہے۔ اسرائیل قوانین کی دھجیاں اڑا دے تو کو ئی بات نہیں۔ غزہ میں اسرائیلی مظالم رکوانے کے لیے  210ممالک میں سے کون کھڑا ہوا۔ صرف شام لبنان ۔یمن ،مصر ، ترکی اور ایران میں سرسراہٹ ہوئی۔ حزب اللہ مسلمانوں کی ایک غیور تنظیم ہے جنھوں نے فلسطین میں اسرائیلی خونریزی پر مزاحمت کی۔ اسماعیل ہا نیہ نے جوانمردی سے مقابلہ کیا۔ جب ایرانی صدر کا جہاز کریش ہوا تو اسے فنی خرابی قرار دیدیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ مسلم ممالک کے جہاز ہی کیوں کریش ہوتے ہیں۔ اُن میں کیوں آگ لگتی ہے؟؟؟ جب نئے ایرانی صدر مسعود پیزز شخاں کی حلف برداری تقریب میں اسماعیل ہانیہ کو سفاکی سے مارا گیا تو اس میں اسرائیل اور امریکہ کا ہاتھ تھا۔ ایران کے معزز مہمان اور مسلم امہ کے بہادر لیڈر کو سفارتی آداب کے خلاف قتل کیا گیا۔ ایران نے صبر سے کام لیا۔ بعد ازاں حسن نصرا للہ پر جان لیوا حملہ اور اُنکے ساتھیوں کی شہادت مسلم امہ کی غیرت پر طماچہ تھا جس کا کاری جواب  57اسلامی ممالک میں سے صرف ایران نے دیا۔ اسرائیل نے غزہ کو ملیا میٹ کر ڈالا اور بے حمی بلکہ درندگی سے فلسطینیوں کو شہید کر کے لبنان پر حملہ آور ہوا۔ لبنان میں بھی آگ اور خون کی جنگ چھیڑ دی چنانچہ ایران نے اسرائیل پر سینکڑوں بیلسٹک میزائلوں سے حملہ کر دیا جس میں فوری طور پر دس اسرائیلی مارے گئے مگر اسرائیل کے سر پر تو جیسے خون سوار تھا۔ اسرائیل نے کسی درندے کی طرح لبنان اور شام پر کروز میزائل برسا دئیے۔ جو نہی ایک حملہ ایران کی طرف سے ہوا تو امریکی صدر جو با ئیڈن بلبلا کر بولے کہ ہم ایران کو منہ توڑ جواب دیں گے۔ ایران سے سفارتی، معاشی، معاشرتی تعلقات سار ی دنیا سے منقطع کرا دیں گے۔ امریکی صدر جن سے کھڑا اور بولا بھی نہیں جاتا مگر حسد، تعصب، نفرت اور انتقام اس آدمی کی بوڑھی ہڈیوں میں بھرا پڑا ہے۔ اسرائیل ہٹ دھرمی دکھائے، ظلم کے پہاڑ تو ڑے، قا نون کی دھجیاں بکھیرے یاانسانوں کو لہو لہان کر دے مگر امریکہ ہمیشہ اسرائیل کو حق بجانب سمجھتا ہے۔ اس ظلم تشدد اور غیرانسانی سلوک پر روس اور چین نے بھی سخت تنقید کی ہے۔ روس نے متنبہ بھی کیا ہے۔ مصر اور ترکی نے بھی اسرائیل کو باز رہنے کا کہا ہے لیکن امریکہ کی مکمل پشت پناہی وجہ سے اسرائیل سارے علاقے کا ماما بنا ہواہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ مٹھی بھر اسرائیل سے امریکہ کا کیا رشتہ ہے۔ امریکیوں کا زیادہ تر مذہب عیسائیت ہے جبکہ اسرائیل ایک کٹر یہودی ملک ہے لیکن امریکہ کے لیے اسرائیل ایک معشوقہ ہے جبکہ اسرائیل نے ہمیشہ سے امریکہ کو باپ بنا رکھا ہے۔ امریکہ ہیومن رائٹس کا چیمپئین بنتا ہے۔ کتے بلیاں گھوڑے گدھے سب پر مہربان ہے۔ امریکی جانوروں سے محبت کرتے ہیں۔ کسی جانور کو ذرا سی چوٹ لگ جائے تو بائولے ہو جاتے ہیں۔ کوئی جانور کو نقصان پہنچا دے تو عدالت میں مقدمہ کر دیتے ہیں لیکن اسرائیل ایک سال میں جو لاکھوںمسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار چکا ہے اور انسانیت کو زخمی کر چکا ہے تو امریکہ کی انسانیت کس سیارے پر چلی گئی ہے۔ اُلٹا امریکہ ایران کو دھمکیاں دے رہا ہے۔ جنگ نے مشرقِ وسطیٰ کا گھیرائو کر لیا ہے۔ اسرائیل کے لیے ایران پاکستان اور افغانستان تر نوالہ ہیں۔ اگر حالات یو نہی کشیدہ رہے تو ہم تیسری جنگِ عظیم دیکھ کرپر لوک سدھا دیں گے۔ تیسری جنگِ عظیم ایٹم بم کی ہولناکیوں، تباہیوں، بربادیوں کے ساتھ برپا ہو گی۔ یہ جنگ مسلمانوں عیسایئوں یہودیوں سے ہو تی ہوئی ہندئوں سکھوں پارسیوں ملحدوں تک پھیل جائے گی۔ اس جنگ میں موت کے سِوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ امریکہ کی انسانیت نوازی ، دُور اندیشی اور مصلحت پسندی کہاں ہے؟؟ اسرائیل جو انسانیت کا پرچارک بنتا ہے۔ جہاں دنیا کے عظیم فلاسفر، دانشور، استاد، ادیب، شاعر، سیاستدان اور مُصلح موجود ہیں۔ کیا وہ جنگ کی تباہ کاریوں سے نا واقف ہیں۔ کیا وہ ساری دنیا کو ہلاک کر کے امریکہ سے منہ کالا کرکے اتنی بڑی دنیا میں اکیلے جی لیں گے؟؟؟

ای پیپر دی نیشن