پنجاب کے بارانی علاقوں میں خاموش زرعی انقلاب

بارش کو فارسی میں باران کہتے ہیں اور زمین کا وہ خطہ جہاں کاشتکاری کا دارومدار دریاؤں اور نہروں کی بجائے صرف و صرف بارش پر ہو اس کو بارانی علاقہ کہتے ہیں۔ صوبہ پنجاب جسے پاکستان کی زراعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے اس میں ایک دو نہیں بلکہ 13 اضلاع ایسے ہیں جو بارانی علاقوں میں شامل کئے جاتے ہیں۔ نقشے پر دیکھا جائے تو یہ اضلاع صوبہ کے جنوب سے شمال اور مشرق تک پھیلے ہیں۔ ان اضلاع میں راجن پور، ڈی جی خان، لیہ، بھکر، خوشاب، میانوالی، چکوال، اٹک، راولپنڈی، جہلم، گجرات، سیالکوٹ اور نارووال شامل ہیں۔ پنجاب کے بارانی علاقوں میں ہی صوبے کے جنگلات اور معدنیات کی بڑی مقدار موجود ہیں۔ بارانی خطہ 12.6 ملین ایکڑ اراضی پر مشتمل ہے جس میں سے 10 ملین ایکڑ اراضی کو دنیا کی بہترین چراگاہوں پر منتقل کرکے بڑی تعداد میں لائیو سٹاک کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔ بارانی خطہ میں مری اور کوٹلی ستیاں کے پہاڑ، سالٹ رینج، پوٹھوہار کا علاقہ اور تھل کے صحرا موجود ہیں۔ 

حکومت پنجاب نے آج سے 45 سال قبل ہی اس اہمیت کو جانچ لیا کہ زراعت کے روایتی محکمے بارانی علاقوں میں زراعت کے چیلنجز کو نمٹنے کے لئے ناکافی ہیں۔ اور بارانی علاقوں میں کاشتکاری کو فروغ دیئے بغیر پنجاب اور پورے ملک کی غذائی ضروریات کو پورا کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ اسی مقصد کے تحت محکمہ آباد (ABAD) جسے ایجنسی فار بارانی ایریاز ڈیویلپمنٹ کہتے کا قیام مئی 1978 میں عمل میں لایا گیا تھا اور اس کا مقصد یہ تھا کہ بارانی علاقوں میں زرعی پیداوار بڑھانے کے لئے ایک جامع منصوبہ بندی کی جائے جس میں پانی کو محفوظ بنانا اور کسانوں کے لئے زرعی شعبہ میں زیادہ سے زیادہ تعاون فراہم کرنا ہے۔ بارانی علاقوں میں زرعی شعبہ میں بہتری لانے کے لئے دیگر تمام محکموں کا تعاون بھی انتہائی ناگزیر ہے جن میں ایگریکلچر ایکسٹینشن، لائیو سٹاک، ڈیری ڈیپارٹمنٹ، زمین کو محفوظ بنانے کا محکمہ سوائل کنزرویشن اور فشریز ڈیپارٹمنٹ شامل ہیں۔ حکومت پنجاب نے محکمہ آباد کے زیر اہتمام بہت سے منصوبے پر عمل درامد کیا گیا جن میں منی ڈیمز کی تعمیر انتہائی اہم ہے۔ منی ٹائمز اور تالابوں کی تعمیر سے بارانی علاقوں میں کاشت کے عمل کو شروع کیا گیا جس کی وجہ سے کسانوں کو براہ راست فائدہ ہوا اور ان علاقوں میں بھی پیداوار کا عمل شروع ہو گیا جہاں پر عام حالات میں پیداوار ممکن نہیں ہوتی۔ پیداوار میں اضافے کا سب سے زیادہ فائدہ کسان کو ہوا جس سے اس کی آمدن میں اضافہ ہوا اس کے علاوہ پانی کو محفوظ بنانے اور انڈر گراؤنڈ واٹر کو ریچارج کرنے میں بھی یہ منصوبے فائدہ مند ہوئے۔ بارانی علاقوں میں بارش کے پانی کو محفوظ کر کے اس سے زرعی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اور یہی کام محکمہ آباد نے منی ٹائمز اور تالابوں کی تعمیر سے کیا۔ منی ڈیم اس کے قیام کی وجہ سے کسان ان موسموں میں بھی زرعی پیداوار لے سکتے ہیں جب اس خطے میں بارشیں نہیں ہوتی۔ 
ڈائریکٹر جنرل آباد شیریں ناز نے اپنے محکمے کے موجودہ جاری منصوبوں کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف کے وڑن کے مطابق بارانی علاقوں میں سولر ٹیوب ویلز کی فراہمی کے حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جا رہے ہیں اور حکومت پنجاب نے موبائل سولر ٹیوب ویلز کا بھی ایک پروگرام جاری کیا ہے جس کے تحت انفرادی اور تین سے پانچ یا سات کسان ملکر آباد سے کمیونٹی سولر ٹیوب ویلز کی درخواست دے سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ محکمہ آباد کا اس وقت ایک اہم پروگرام جاری ہے جس کی مجموعی مالیت پہلے 450 ملین روپے تھی اور اب اس کی مالیت کو بڑھا کر 1000 ملین روپے کر دیا گیا ہے اور یہ پروگرام جسے کسان کی بہبود کا پروگرام کہا جاتا ہے کے تحت کسانوں کو 330 سولر ٹیوب ویلز فراہم کئے جائیں گے جن میں سے 165 کمیونٹی سولر ٹیوب ویلز ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ سولر ٹیوب ویلز کی فراہمی کا یہ منصوبہ اگلے سال تک مکمل کر لیا جائے گا اور اس منصوبے کی تکمیل کے بعد تقریباً پانچ ہزار ایکڑ سے زائد بارانی زمین کو سیراب کیا جا سکے گا اور اس سے پہلے سے ذیادہ مقدار میں زرعی اجناس حاصل کی جا سکے گیں۔ انہوں نے کہا کہ رواں برس تک 96 انفرادی سولر ٹیوب ویلز فراہم کئے جا چکے ہیں جبکہ کمیونٹی سولر ٹیوب ویلز  جو فراہم کئے جا چکے ہیں ان کی تعداد 86 ہے۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ آباد اباد کے زیر انتظام اس وقت چھوٹے اور میڈیم سائز کے پانی کے ذخیروں کے کئی منصوبے جاری ہیں اور ان پر بھی تیزی سے پیشرف جاری ہے۔
بارانی کمیشن نے 1976 میں ایک رپورٹ مرتب کی جس کے مطابق بارانی علاقوں میں 18 ملین ایکڑ زمین کی کو زیر کاشت لا کر پورے پنجاب کی زرعی ضروریات کو پورا کیا جا سکتا ہے۔ زرعی پیداوار کے علاوہ بارانی علاقوں میں بہت سے معدنیات کے ذخائر موجود ہیں جن میں کوئلہ، پتھر، نمک اور جپسم شامل ہیں۔ پنجاب کے جنگلات کا 75 فیصد حصہ بارانی علاقوں میں موجود ہے۔ ان علاقوں میں سالانہ 400 سے 1600 ایم ایم تک بارش ہوتی ہے۔ اور سالانہ بارش کے اس تناسب کے حساب سے یہاں پر آٹھ ملین ایکڑ رقبے کو زیر کاشت لایا جا سکتا ہے۔ اس وقت بارانی علاقوں میں صرف ایک ملین ایکڑ زمین کو زیر کاشت لایا جا رہا ہے۔ جبکہ ان علاقوں میں نو ملین ایکڑ فٹ بارش کا پانی نالوں اور دریاؤں میں ضائع ہو جاتا ہے اور اگر اس پانی کا ایک تہائی حصہ بھی محفوظ کر دیا جائے تو بارانی علاقوں کے 10 ملین ایکڑ رقبے کو زیر کاشت لایا جا سکتا ہے۔ 
بارانی علاقوں کے زراعت کے حوالے سے چار بڑے مسائل ہیں جن میں سب سے بڑا مسئلہ بارش کے پانی کا ضیاع اور پانی کو محفوظ کرنے کے طریقوں کا ناپید ہونا ہے۔ اس کے علاوہ زمین مسلسل کٹاؤ کا شکار ہے جبکہ زمین کے اندر زرخیزی کم ہے۔ جبکہ کسانوں میں استعداد کار کی کمی ہے۔ ان تمام مسائل کی وجہ سے فوڈ ان سیکیورٹی اور غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 

محکمہ آباد کا ماسٹر پلان:

 1988 میں آباد کے لئے ماسٹر پلان کیلئے یو این ڈی پی نے فنڈنگ فراہم کی اور ایشیئن ڈویلپمنٹ بینک نے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ اور اس کے ذیلی محکمہ کے تعاون سے اس پر عمل درآمد کرنا تھا۔  دو امریکی فرموں ڈویلپمنٹ آلٹرنیٹو واشنگٹن ڈی سی اور ہرزا انجینئرنگ کمپنی شکاگو نے تمام بین الاقوامی مشیر فراہم کئے ہیں۔ نیسپاک لاہور نے اس اسائنمنٹ کے لئے پیشہ ور مقامی کنسلٹنٹ فراہم کئے۔  معاشی اور سماجی تجزیہ کے لیے سروے کی معاونت پنجاب اکنامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (PERI) نے فراہم کی تھی۔ یہ ماسٹر پلان پنجاب کے بارانی علاقوں میں پانی اور زراعت کے شعبے میں عوامی سرمایہ کاری کے لیے رہنما اصول فراہم کرتا ہے۔   ماسٹر پلان کے تحت پانچ اور 20 سالہ منصوبہ بندی کر کے ترقیاتی حکمت عملی تیار کی گئی ہے۔

محکمہ آباد کے بنیادی مقاصد:
 1. آبی وسائل کی ترقی کے پروگراموں کے ذریعے پانی کی کمی کو دور کرنا۔
 2. غربت میں کمی اور پائیدار زرعی ترقی
 3. قابل تجدید توانائی اور آبی وسائل کا موثر استعمال 
 4. زمین اور زراعت کے وسائل، مویشیوں کے وسائل، سماجی جنگلات اور ماہی پروری کی ترقی کا انتظام
 5. باغبانی اور پھولوں کی زراعت کی ترقی
 6. انسانی اور سماجی سرمائے کی ترقی

 محکمہ آباد نے اپنے قیام سے تاحال 44 سے زیادہ کثیر شعبوں کے ترقیاتی منصوبے مکمل کیے ہیں جن پر مجموعی طور پر  15.0 بلین روپے سے زیادہ خرچ کئے جا چکے ہیں۔ آباد نے یہ ترقیاتی منصوبے آبی وسائل، زراعت اور لائیوسٹاک، جنگلات اور ماہی پروری، ہیومن ریسورس اور آف فارم آمدنی پیدا کرنا اور قابل تجدید توانائی کے شعبوں میں مکمل کئے ہیں 
 آباد ایسے نظام اور بنیادی ڈھانچے کو تیار کرنے کیلئے کوشاں ہے جو پانی کے ضیاع اور مٹی کے کٹاؤ کو کم کرنے اور مٹی کی زرخیزی کو بہتر بنانے میں مدد کرتا ہے۔
محکمہ آباد نے ان مقاصد کے حصول کے لیے اپنے ٹارگٹ بروقت مکمل کئے ہیں۔ اپنے قیام سے تاحال 1287 منی ڈیمز، 2356 تالاب، 7882 کم گہرے ٹیوب ویل،  204 سولر واٹر پمپنگ سسٹم، 125 بائیو گیس پلانٹس، 35 روف ٹاپ ہارویسٹنگ کے منصوبے، 755 پانی ذخیرہ کرنے کے ٹینک،  4201 لفٹ ایریگیشن اسکیمیں اور 403 چیک ڈیم بنائے ہیں۔ مجموعی طور ان منصوبوں سے 12 لاکھ ایکڑ سے زائد زمین کو محفوظ کیا گیا ہے جبکہ چار لاکھ اور 62 ہزار رقبہ پر جنگلات کے اگانے میں مدد دی ہے۔ 
میانوالی، ڈی جی خان اور راجن پور کے اضلاع میں 592 ملین روپے کی لاگت سے آباد کا ایک منصوبہ جاری ہے جس کے تحت بارش کے پانی کو محفوظ بنانے کے لئے تلاب بنائے جا رہے ہیں اس کے علاوہ سولر واٹر پمپنگ سسٹم، ماہی پروری اور ہیچریز کی اپ گریڈیشن کے لئے ان کسانوں کو امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ 
اس کے علاوہ پنجاب کے 10 اضلاع جن میں راولپنڈی، اٹک جہلم، چکوال، خوشاب، بھکر، نارووال، گجرات، سیالکوٹ اور لیہ شامل ہیں ان میں آباد کے تحت ایک ہزار ملین روپے یا ایک ارب روپے مالیت کے مختلف منصوبے جاری ہیں۔ ان منصوبوں میں بارش کے پانی کو محفوظ بنانے کے لئے چھوٹے اور بڑے لیول کے ذخائر، ٹیوب ویل اور سولر سے چلنے والے واٹر پمپنگ سسٹم شامل ہیں۔ سولر واٹر پمپنگ سسٹم کسانوں کو انفرادی طور پر مہیا کئے جا رہے ہیں اور تین پانچ یا سات کسانوں کی کمیونٹی بنا کر بھی ان کو دیئے جا رہے ہیں۔ انفرادی طور پر یہ سسٹم کسانوں کو 30 اور 70 کی نسبت سے دیئے جاتے ہیں جبکہ کمیونٹی کی صورت میں یہ واٹر پمپنگ سسٹم فراہم کیا جاتے ہیں۔ سولر پاور پمپنگ سسٹم مکمل طور پر موبائل نظام ہے جس کو ایک ٹرالی کی مدد سے ایک مقام سے دوسرے مقام پر پہنچایا جا سکتا ہے اور اس سسٹم کے لئے موٹر اور پانی کے ذریعے کا مہیا کرنا کسانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ 
محکمہ آباد کے زیر انتظام مکمل ہونے والے منصوبے کی عام کسانوں کیلئے افادیت کو جانچنے کے لئے مقامی اور انٹرنیشنل لیول پر سروے کئے گئے ہیں جن کی نتائج ہمیشہ حوصلہ افزا رہے ہیں۔ 1990 سے 1998 تک پوٹھوہار کی خطے کے چار تحصیلوں چکوال، فتح جنگ، سوہاوہ اور شکرگڑھ میں شروع کیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت مختلف شعبوں میں کسانوں کو امداد فراہم کی گئی اور یہ منصوبہ انٹرنیشنل فنڈ فار ایگریکلچر ڈیویلپمنٹ کے تعاون سے مکمل کیا گیا۔  اس منصوبے کی عام کسانوں کی لیے افادیت کو جانچنے کے لیے پنجاب اکنامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے تحت ایک سروے کیا گیا جس کے مطابق اس منصوبے کے بعد ان علاقوں میں زیر کاشت زمین میں 28 فیصد اضافہ ہوا جبکہ گندم کی پیداوار میں 15 فیصد اضافہ ہوا اس کے علاوہ باجرہ جوار اور آئل سیڈ سمیت مختلف فصلوں میں ساڑھے چار سے 8.2 فیصد اضافہ ہوا اور مجموعی طور پر پیداوار میں 21 فیصد اضافہ ہوا۔
بین الاقوامی ادارے جیسا کہ ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے بھی محکمہ آباد کے میگا پروجیکٹس کے اہمیت کے بھی معترف ہیں۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے آباد کے منصوبوں کا عام کسانوں کی زندگی پر اثر کا جائزہ لینے کے لئے ایک رپورٹ مرتب کی جس میں آباد کے میگا پراجیکٹس کی حوصلہ افزائی کی گئی اور کہا گیا کہ ان پروجیکٹس نے عام کسانوں کی زندگیوں میں بہتری لائی ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی اس رپورٹ میں بعد کے مختلف منصوبوں کا عام کسانوں کی زندگیوں پر اثرات کا جائزہ لیا گیا۔ ان منصوبوں میں سیکنڈ بارانی ایریا ڈیویلپمنٹ پراجیکٹ، بارانی ویلج ڈیویلپمنٹ پراجیکٹ، بارانی علاقوں میں زمین کو پائیدار بنیادوں پر استعمال کرنے کا منصوبہ، بارانی علاقوں میں مستقل ذریعہ معاش کا پروگرام، ڈی جی خان رولر ڈیویلپمنٹ پروجیکٹ اور قبائلی علاقوں میں ترقی کا منصوبہ شامل ہیں۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق ان تمام منصوبوں کی تکمیل کے بعد بارانی علاقوں میں کسانوں کی زندگیوں میں مجموعی طور پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوئے۔

ای پیپر دی نیشن