تیرا ہی دل نہ چاہے تو باتیں ہزار ہیں!

 ہر زندہ اور غیرت مند قوم کو اپنی ثقافت عزیز ہوتی ہے اور وہ اسے کسی قیمت پر بھی مٹتے ہوئے یا برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتی۔ چاہے اس کے لئے اسے کتنی ہی بڑی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔ یہی وہ جذبہ تھا جو حصول پاکستان کاباعث بنا۔ اگر ہمارے دلوں میں اپنی ثقافت سے محبت کا جذبہ نہ ہوتا تو ہم ہندوستان کی تہذیب میں جذب ہونے پر تیار ہوتے اور اپنی انفرادیت کو قائم کرنے کے لئے ان سب مصائب کا مقابلہ کبھی نہ کرتے جو ہمیں پاکستان کے حصول کی راہ میں پیش آئے۔ یہ ہے مقام عبرت وہ قوم جو اس دعوے کے ساتھ اٹھی تھی اسے اپنی تہذیب و ثقافت اتنی عزیز ہے کہ وہ اغیار کے ساتھ شرکت کی زندگی کے لئے کسی قیمت پر آمادہ نہیں وہ اسی ثقافت کو بے سوچے سمجھے مٹارہی ہے۔ وطن عزیز کو وجود میں آئے نصف صدی سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے لیکن ہم ابھی تک اپنی قومی زبان اردو کو فروغ نہیں دے سکے بلکہ ایک غیر ملکی زبان کے سحر میں گرفتار ہیں۔ بدقسمتی سے علم و حکمت سے ’’محروم‘‘ اور قیام پاکستان کے مقاصد سے ’’ناآشنا‘‘ ہمارے سیاستدان اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی ثقافت کو مٹانے پر تلے ہوئے ہیں۔ کیوں کہ ہمارے حکمرانوں کے نزدیک تعمیر پاکستان کا مطلب کوٹھیاں، محلات، کارخانے اور پلازوں کی تعمیر ہے لہٰذا یہ ان کی ’’تعمیر‘‘ میں اندرون و بیرون ملک منہمک ہیں۔

 ہمارے حکمران طبقے کو نہ تو بانیان پاکستان کی تعلیمات سے کوئی شغف ہے اور نہ ہی آئین کی پاسداری کی پرواہ۔ ۶۷ سال سے سبھی مل کر تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں اورمفاداتی سیاست میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مگن ہیں۔ بانی پاکستان قائداعظم نے اپنی دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے نوزائیدہ مملکت پاکستان کی قومی و سرکاری زبان کا خود ہی فیصلہ فرما دیا تھا، کئی موقعوں پر آپ نے ارشاد فرمایا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو اور صرف اردو ہوگی۔ حالانکہ وہ خود انگریزی مدرسوں سے تعلیم یافتہ تھے۔ انہیں انگریزی کی اہمیت کا احساس بھی تھا مگر انہوں نے پاکستان کی جداگانہ سیاست کو برقرار رکھتے ہوئے اردو کو قومی زبان قرار دیا۔ قیام پاکستان کے مقاصد میں بھی زبان کا عنصر شامل تھا۔ اس سے قبل تحریک اردو زبان کے سلسلے میں شاعر مشرق علامہ اقبال بھی بابائے اردو مولوی عبدالحق کو ایک خط میں لکھ چکے تھے کہ ’’کاش میری صحت اجازت دیتی تو میں بھی آپ کے ساتھ اردو کی خدمت کرتا لیکن میری لسانی عصبیت دینی عصبیت سے کم نہیں ہے۔ اسی طرح جناب محترم حمید نظامی مرحوم نے نوائے وقت کے پہلے پرچے میں ’’کچھ اپنے متعلق‘‘ کے عنوان سے اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا تھا۔ ’’ہمارے دو سب سے بڑے مقاصد ہیں۔ اردو زبان کی ترقی اور علامہ محمد اقبال کے پیغام کی اشاعت ‘‘پھر قیام پاکستان کے بعد جب ۱۹۷۳ء کا متفقہ آئین بنا تو اس میں درج کیا گیا کہ پاکستان کی قومی و سرکاری زبان اردو ہوگی اور پندرہ سال تک یعنی ۱۹۸۸ء تک اسے عملی طور پر نافذ کردیا جائے گا‘‘۔ اب ۷۷ سال سے حضرت قائداعظم، علامہ اقبال کے ارشادات اور ۷۳ء کے آئین کی شق (۱) ۲۵۱ کو بالائے طاق رکھ کر اردو کے بارے اغماض برتا جارہا ہے۔ ۵۸ ٹو بی کا خاتمہ ہو یا تیسری بار وزیراعظم بننے والی شق وہ تو ہمارے حکمران طبقے کو بھاتی ہیں مگر قومی زبان اردو کے عملی نفاذ کے بارے میں آئینی شق پر آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ انہیں چوں کہ صرف تجوریاں بھرنے سے دلچسپی ہے لہٰذا پہلی جماعت سے انگریزی نافذ کرکے دو سالہ بی اے کا خاتمہ کرکے ۴ سالہ B-Sآنرز کا صرف انگریزی میں نفاذ، عربی و فارسی ختم کرکے انہیں انگریز سرکار سے آج بھی ’’ڈالر‘‘ مل رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی ہو، تحریک انصاف ہو یا الف سے لے کر ی تک کوئی بھی مسلم لیگ ہو سب کا ایجنڈا ’’مفاداتی‘‘ سیاست ہے۔ قائداعظم کی تعلیمات و افکار اور آئین سے کسی کو بھی سروکار نہیں۔ کون احمق یہ کہتا ہے کہ سائنسی علوم کی تعلیم انگریزی کے علاوہ کسی اور زبان میں نہیں دی جاسکتی۔ حالانکہ خود انگریز بہادر کے زمانے میں رِڑکی انجینئرنگ کالج، ایک میڈیکل کالج اور دہلی کالج کے شعبہ سائنس میں اردو ہی ذریعہ تدریس تھی۔
 کم و بیش ۷۰ سال سے زائدہ عرصہ قبل تک عثمانیہ یونیورسٹی میں سائنس کی اعلیٰ تعلیم بھی اردو میں ہی دی جاتی رہی ہے اگر ڈاکٹر عبدالقدیر خاں نے اردو میں تعلیم حاصل کی ہوتی تو کیا ایٹم بم بننے سے انکار کردیتا؟ دنیا کے تمام ممالک میں ذریعہ تعلیم ان کی اپنی زبانیں ہیں۔ چین و جاپان، کوریا، ایران، روس سب کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں کیا یہ ممالک ترقی نہیں کررہے؟ مگر ہم تو من حیث القوم اپنی انگریزی پسندی میں اتنا آگے نکل گئے ہیں کہ شاید انگریز بہادر خود بھی اپنے آپ کو اتنا پسند نہ ہوجتنا کہ ہمیں پسند ہے۔ ہم انگریزی پڑھنے کے ہرگز مخالف نہیں ہیں اسے ضرور پڑھا جائے مگر ذریعہ تعلیم اپنی مادری زبان ہی ہونی چاہئے تاکہ بچہ آسانی سے تعلیم حاصل کرے۔ اخبارات، جرائد سب سے زیادہ اردو میں پڑھے جاتے ہیں، انگریزی پڑھنے والے دو فیصد ہوں گے۔ ہمارے حکمران طبقے کو احساس کمتری سے نکل کر قومی زبان اردو کو فوراً نافذ کرنا چاہئے اعلیٰ عدلیہ جوکہ آئین پر عمل درآمد کی ضامن ہے اسے بھی قومی زبان اردو کے بارے مسلسل ۳۲ سال سے جو ’’آئین شکنی‘‘ کی جارہی ہے اس کا نوٹس لینا چاہئے۔


uuu


  
                                                                

سید روح الامین....برسرمطلب

ای پیپر دی نیشن