کہتے ہیں تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی اور تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ دوسری حقیقت یہ کہ کچھ لوگ تاریخ لکھتے ہیں اور کچھ بناتے ہیں تیسری بات یہ کہ کچھ کر جاﺅ کہ لکھنے کے قابل ہو اور کچھ لکھ جاﺅ کہ پڑھنے کے قابل ہو۔ ہمارے ذہن میں تاریخ کا خیال اس لئے آیا گیارہ ستمبر حضرت قائداعظم محمد علی جناح کا یوم وفات تھا۔ انہوں نے نئی تاریخ بنائی۔ دنیا کے نقشے پر پاکستان کی صورت میں تاریخ رقم کی۔ مدینہ کے بعد دوسری نظریاتی ریاست‘ لوگوں کا خواب جو مسلمانوں کے غمگسار اور رہبر حضرت علامہ اقبال نے دیکھا اور حضرت قائد نے اسے تعبیر دی۔ اسے بتاﺅ کہ پاکستان کی تاریخ سچی ہے۔ تاریخ جھوٹ نہیں بولتی۔ یہ بھی شاعری کی طرح ہوتی ہے۔
اسے بتاﺅ جو کہتا ہے کہ پاکستان کا قیام غلطی تھی جو کہتا ہے کہ پاکستان اسلام کے لئے نہیں بنایا گیا، قائداعظم سیکولر تھے اور یہ کہ پاکستان کی تاریخ جھوٹ ہے۔ باہر بیٹھ کر باہر والوں کی زبان بولنا اور مسلمانوں کی دلآزاری کرنا کہاں کی دانشمندی اور کہاں کا انصاف ہے۔ کیا کیا نہ کہا تم نے، کیا کیا نہ سنا ہم نے۔ ہم کہتے تو کیا کہتے بس کچھ نہ کہا ہم نے۔ ہم 5گھنٹے تک سولی پر لٹکے رہے کہ شاید ہمارے مغالطے اور شکوک نکل جائیں مگر کچھ ا ور غلط فہمیاں پیدا کر دی گئیں”تم نے روکے محبت کے خود راستے اس طرح ہم میں ہوتی گئی دوریاں“ کیا قائداعظم نے سارا تردد سیکولر ازم کے لئے کیا ا ور مسلمانوں نے لاکھوں جانوں کی قربانی اپنے دین کی بجائے سیکولر ہونے کےلئے دیں۔ پاکستان اللہ کا عظیم احسان ہے اس کا حصول حضرت قائداعظمؒ اور مسلمانوں کا عظیم کارنامہ ہے۔ اگر چمگادڑ کی طرح کسی کو سور ج نظر نہ آئے تو سورج کا کیا قصور، یہ بات میں نے نہیں شیخ سعدی نے کہی تھی۔ سچ بھی یہی ہے۔ بھارت نواز جو اپنے مفادات کے لئے روشن خیالی کے نام پر اپنے دین سے تقریباً منحرف ہو چکے ہیں ذلت ہی اٹھائیں گے۔
تاریخ نہ چھپائی جا سکتی ہے نہ جھٹلائی جا سکتی ہے۔ خواہ یہ تاریخ تعمیر پاکستان کی ہو یا تخریب پاکستان کی صفحہ¿ قرطاس پر اتر آتی ہے۔ سب سے پہلے یہ تاریخ دلوں پر نقش ہوتی ہے۔ تحریک پاکستان کے کحھ کارکن اب بھی موجود ہیں۔ آپ ا ن کی زبانی سنیے اور سردھنیے۔ صرف عقیدے کے نام پر جان سے گزرا جا سکتا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد کی تاریخ سے تو بے شمار لو گ آشنا ہیں۔ مثلاً پرویز مشرف کے دور کی تاریخ ہمارے سینوں پر لکھی ہوئی ہے۔ جامع حفصہ اور لال مسجد اپریشن جس میں فاسفورس سے معصوم بچیوں کو بھسم کر دیا گیا۔ بارہ مئی کا سیاہ دن جس دن کراچی کی سڑکوں پر لاشے تڑپ رہے تھے۔ قاتل دندناتے پھر رہے تھے۔ کئی کیمروں میں ان کے مکروہ چہرے محفوظ ہیں۔
پوری کوشش کے باوجود قاتلوں کے دامن سے خون کا یہ داغ نہیں دھلا اور ہمارے دلوں سے نہیں مٹا۔ بالکل تارہ واقعہ محسوس ہوتا ہے۔ عمران خاں چیخ رہا تھا کہ کراچی میں بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس کو ایئرپورٹ پر محبوس کر دیا گیا تھا۔ پورے شہر کے راستے کنٹینروں سے روک دیئے گئے تھے وحشت اور درندگی رقص کناں تھی اور اب الطاف صاحب فرماتے ہیں کہ اس دن ایم کیو ایم نے جمہوریت کے لئے جلوس نکالا تھا۔ لاحول ولاقوة ہمارے حواس اس قدر دھوکہ دے سکتے ہیں شاید ہم نے کوئی بھیانک خواب دیکھا تھا۔ نہیں نہیں۔ خدا کیلئے زخموں کو مندمل ہونے دیں انہیں چاقو یا چھری کے ساتھ مت کریدیں۔
میں ان لوگوں میں سے ہوں جو مہاجرین کےلئے دل میں نہایت نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ میں تو ان کو مہاجر کہنے پر بھی معترض ہوں کہ ا ن کی دو نسلیں تو یہیں پیدا ہو کر پروان چڑھی ہیں انہیں پکا اور سچا پاکستانی سمجھتا ہوں و ہ ہماری طرح پاکستانی شہری ہیں۔ ان میں اکثر تعلیم یافتہ اور باصلاحیت لوگوں کی ہے۔ معلوم نہیں کیوں انہیں ایک احساس بے یقینی کا شکار کر کے کسی اور راہ پر ڈال دیا گیا۔ خدا کےلئے بس کریں۔ اپنے ہی لوگوں کا کردار مشکوک نہ کریں۔ اب بھی قائد کے نقش قدم پر چل کر ترقی کی راہ پر آیا جا سکتا ہے۔ اسلام کی حقانیت ہی ہماری منزل ہے۔ اب مسلمانوں کو جاگ جانا چاہئے کہ ان کے تشخص اور پہچان کو مٹانے کےلئے بڑے پیمانے پر سازش ہو رہی ہے۔ پاکستان کی اساس پر حملہ آور ہوا جا رہا ہے۔ گو پاکستان کے وجود کے جواز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان کی تاریخ پر حملہ کرنے والے خود محتاط ہو جائیں کہ ان کا کہنا سنا تاریخ بننے جا رہا ہے۔ تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی۔
اسے بتاﺅ جو کہتا ہے کہ پاکستان کا قیام غلطی تھی جو کہتا ہے کہ پاکستان اسلام کے لئے نہیں بنایا گیا، قائداعظم سیکولر تھے اور یہ کہ پاکستان کی تاریخ جھوٹ ہے۔ باہر بیٹھ کر باہر والوں کی زبان بولنا اور مسلمانوں کی دلآزاری کرنا کہاں کی دانشمندی اور کہاں کا انصاف ہے۔ کیا کیا نہ کہا تم نے، کیا کیا نہ سنا ہم نے۔ ہم کہتے تو کیا کہتے بس کچھ نہ کہا ہم نے۔ ہم 5گھنٹے تک سولی پر لٹکے رہے کہ شاید ہمارے مغالطے اور شکوک نکل جائیں مگر کچھ ا ور غلط فہمیاں پیدا کر دی گئیں”تم نے روکے محبت کے خود راستے اس طرح ہم میں ہوتی گئی دوریاں“ کیا قائداعظم نے سارا تردد سیکولر ازم کے لئے کیا ا ور مسلمانوں نے لاکھوں جانوں کی قربانی اپنے دین کی بجائے سیکولر ہونے کےلئے دیں۔ پاکستان اللہ کا عظیم احسان ہے اس کا حصول حضرت قائداعظمؒ اور مسلمانوں کا عظیم کارنامہ ہے۔ اگر چمگادڑ کی طرح کسی کو سور ج نظر نہ آئے تو سورج کا کیا قصور، یہ بات میں نے نہیں شیخ سعدی نے کہی تھی۔ سچ بھی یہی ہے۔ بھارت نواز جو اپنے مفادات کے لئے روشن خیالی کے نام پر اپنے دین سے تقریباً منحرف ہو چکے ہیں ذلت ہی اٹھائیں گے۔
تاریخ نہ چھپائی جا سکتی ہے نہ جھٹلائی جا سکتی ہے۔ خواہ یہ تاریخ تعمیر پاکستان کی ہو یا تخریب پاکستان کی صفحہ¿ قرطاس پر اتر آتی ہے۔ سب سے پہلے یہ تاریخ دلوں پر نقش ہوتی ہے۔ تحریک پاکستان کے کحھ کارکن اب بھی موجود ہیں۔ آپ ا ن کی زبانی سنیے اور سردھنیے۔ صرف عقیدے کے نام پر جان سے گزرا جا سکتا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد کی تاریخ سے تو بے شمار لو گ آشنا ہیں۔ مثلاً پرویز مشرف کے دور کی تاریخ ہمارے سینوں پر لکھی ہوئی ہے۔ جامع حفصہ اور لال مسجد اپریشن جس میں فاسفورس سے معصوم بچیوں کو بھسم کر دیا گیا۔ بارہ مئی کا سیاہ دن جس دن کراچی کی سڑکوں پر لاشے تڑپ رہے تھے۔ قاتل دندناتے پھر رہے تھے۔ کئی کیمروں میں ان کے مکروہ چہرے محفوظ ہیں۔
پوری کوشش کے باوجود قاتلوں کے دامن سے خون کا یہ داغ نہیں دھلا اور ہمارے دلوں سے نہیں مٹا۔ بالکل تارہ واقعہ محسوس ہوتا ہے۔ عمران خاں چیخ رہا تھا کہ کراچی میں بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس کو ایئرپورٹ پر محبوس کر دیا گیا تھا۔ پورے شہر کے راستے کنٹینروں سے روک دیئے گئے تھے وحشت اور درندگی رقص کناں تھی اور اب الطاف صاحب فرماتے ہیں کہ اس دن ایم کیو ایم نے جمہوریت کے لئے جلوس نکالا تھا۔ لاحول ولاقوة ہمارے حواس اس قدر دھوکہ دے سکتے ہیں شاید ہم نے کوئی بھیانک خواب دیکھا تھا۔ نہیں نہیں۔ خدا کیلئے زخموں کو مندمل ہونے دیں انہیں چاقو یا چھری کے ساتھ مت کریدیں۔
میں ان لوگوں میں سے ہوں جو مہاجرین کےلئے دل میں نہایت نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ میں تو ان کو مہاجر کہنے پر بھی معترض ہوں کہ ا ن کی دو نسلیں تو یہیں پیدا ہو کر پروان چڑھی ہیں انہیں پکا اور سچا پاکستانی سمجھتا ہوں و ہ ہماری طرح پاکستانی شہری ہیں۔ ان میں اکثر تعلیم یافتہ اور باصلاحیت لوگوں کی ہے۔ معلوم نہیں کیوں انہیں ایک احساس بے یقینی کا شکار کر کے کسی اور راہ پر ڈال دیا گیا۔ خدا کےلئے بس کریں۔ اپنے ہی لوگوں کا کردار مشکوک نہ کریں۔ اب بھی قائد کے نقش قدم پر چل کر ترقی کی راہ پر آیا جا سکتا ہے۔ اسلام کی حقانیت ہی ہماری منزل ہے۔ اب مسلمانوں کو جاگ جانا چاہئے کہ ان کے تشخص اور پہچان کو مٹانے کےلئے بڑے پیمانے پر سازش ہو رہی ہے۔ پاکستان کی اساس پر حملہ آور ہوا جا رہا ہے۔ گو پاکستان کے وجود کے جواز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان کی تاریخ پر حملہ کرنے والے خود محتاط ہو جائیں کہ ان کا کہنا سنا تاریخ بننے جا رہا ہے۔ تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی۔