آئین سے باربار انحراف نےملک میں سیاسی استحکام اور قومی سالمیت کو نقصان پہنچایا ہے۔ چیف جسٹس

سپریم کورٹ میں نئےعدالتی سال کےآغاز کےحوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا کہنا تھا کہ جوڈیشل پالیسی کی وجہ سے اہم احداف حاصل ہوئے ہیں اور کمیشن کے تیس اجلاسوں میں سو ججوں کی تقرری کی سفارش کی گئی ہے جبکہ جوڈیشل پالیسی سے پہلے ملک میں اٹھارہ لاکھ سے زائد کیسسز زیر التوء تھے جو اب چودہ لاکھ رہ گئے ہیں۔ ریٹائرڈ ججوں کی سرکاری ملازمتوں کے حوالے سے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ان ججز کو اپنے منصب سے کم عہدوں پرملازمتیں نہیں کرنی چاہیئں۔ جوڈیشل پالیسی بھی اس سے روکتی ہے جبکہ عدلیہ بھی ان سے ایسے عہدوں سے دستبردار ہونے کی توقع رکھتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قومی مسائل سے نجات آئین اور قانون میں پوشیدہ ہے۔ اس موقع پر اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق نے خطاب کرتے ہوئے عدالتی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ اعلٰی عدلیہ نے سال بھر میں اہم کیسسز نمٹائے ہیں جبکہ عدلیہ کی آزادی کا آئینی حدود میں رہنا بھی ضروری ہے۔ صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عاصمہ جہانگیر نے ججز تعیناتی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا ان ججز کو مستقل کیا جا سکتا ہے جن کے خلاف چیف جسٹس نے خود ریمارکس دئیے ہوں یا جن کے خلاف ٹھوس الزامات موجود ہیں۔ عاصمہ جہانگیر نےکہا کہ ملک میں قابل وکلاء کے نہ ہونے کو ملکی نظام عدل میں بحران کی اہم وجہ قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ آئین عدلیہ کی آزادی کو یقینی بناتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن